خام تیل کو صفائی کے مراحل سے گزار کر درجنوں مصنوعات تیار اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کو چھ ہزار کے قریب مختلف اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے
خام تیل کو صفائی کے مراحل سے گزار کر درجنوں مصنوعات تیار اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کو چھ ہزار کے قریب مختلف اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے

خام تیل سے ایندھن کے علاوہ کیا کیا قیمتی اشیا نکلتی ہیں؟، جانیے اس رپورٹ میں

رپورٹ: ذوالقرنین زیدی

ایک بیرل خام تیل 42 گیلن یا 159 لیٹر کے برابر، جب کہ حجم 5.6 مربع فٹ اور وزن 140 کلو کے قریب ہوتا ہے۔ خام تیل صرف ایندھن ہی کے طور پر استعمال نہیں ہوتا بلکہ خام تیل کو صفائی کے مراحل سے گزار کر درجنوں مصنوعات تیار اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کو چھ ہزار کے قریب مختلف اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
خام تیل سے پٹرول، ڈیزل، ایل پی جی، مٹی کا تیل، اسپرٹ، ایتھینول، تھنر، موبل آئل، بریک آئل، گریس و دیگر لبریکنٹس، ریفریجریٹر گیس (امونیا وغیرہ)، پٹرولیم جیل، موم، پلاسٹک، کیڑے مار ادویات، کھاد، گلیسرین، اسپرین، سڑکیں بنانے کے لیے تارکول وغیرہ حاصل کیے جاتے ہیں‘ جب کہ گلیو، پینٹ، کاربیٹری، صابن، ہیئرکلر، ناخن پالش، لپ اسٹک، کولڈ کریم، موم بتی، پائپ، سیفٹی شیشے، مصنوعی اعضا وغیرہ جیسی ہزاروں مصنوعات بھی خام تیل سے حاصل کردہ مصنوعات سے تیار کی جاتی ہیں۔
آئل ریفائنریز خام تیل صاف کرنے کا کام انجام دیتی ہیں، یوں ایک بیرل یعنی 42 گیلن خام تیل 50-60 ڈالر (7.5سے 9.5 ہزارروپے) بشمول سفری اخراجات کے ساتھ میں خرید کر اس سے پٹرولیم مصنوعات حاصل اور انھیں فروخت کرتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق ریفائنری کے اخراجات اتنے زیادہ نہیں ہیں جتنے ریفائننگ کمپنیاں ظاہر کرتی ہیں، تاہم اگر اخراجات کچھ زیادہ بھی ہوں تو 9.5 ہزار روپے فی بیرل حاصل کیا گیا خام تیل زیادہ سے زیادہ 60 روپے لیٹر پڑتا ہے۔
ویسے بھی پاکستان خام تیل کی خریداری امریکا سے نہیں بلکہ سعودی عرب سے کرتا ہے جہاں خام تیل کی قیمتیں امریکی منڈی سے کم ہوتی ہیں جبکہ عرب ممالک پاکستان کو یہ خام تیل رعایتی نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ 60روپے لیٹر پڑنے والے خام تیل کو ریفائن کرنے کے بعد بہت سی مصنوعات جیسے امونیاگیس، موبل آئل، ہائی اوکٹین، تھنر، اسپرٹ، الکوحل، گریس، پٹرولیم جیل وغیرہ پٹرول کی نسبت انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں، ڈیزل کے نرخ بھی پٹرول سے زیادہ ہیں، البتہ فرنس آئل یا تارکول وغیرہ کم داموں میں فروخت کیا جاتا ہے مگر ان کی پیداوار (فریکشن) کا تناسب دیگر مہنگی مصنوعات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، اسی طرح عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی پاکستان میں چند پٹرولیم مصنوعات کی جانب منتقل کی جاتی ہے جب کہ بیشتر مصنوعات اور دیگر پیٹروکیمکلز کی قیمتوں میں بالکل کمی نہیں کی جاتی۔
یوں اگر ریفانننگ کمپنیاں خریداری ریٹ یعنی 60 روپے فی لیٹر پر پٹرول فروخت کریں تو بھی بھرپور منافع کماسکتی ہیں (کیونکہ دیگر درجنوں مصنوعات کی فروخت سے وہ کئی گنا منافع کمالیتی ہیں)۔ اگر ریفاننگ کمپنیوں کی ویب سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایکس ریفائنری نرخ (بشمول تمام ٹیکسز) مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم ہیں۔ ہماری حکومتیں ٹیکس در ٹیکس لگا کر قیمتیں آسمان پر پہنچا دیتی ہیں۔
یہ ایک الگ موضوع ہے کہ حکومت ٹیکس نہ لگائے حکومتی اخراجات کیسے پورے کرے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ حکومت صرف ٹیکس چوری میں ہی محض 10 فیصد کمی لے آئے تو 22 کروڑ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پسنے سے بچایا جاسکتا ہے۔