ضیاء چترالی:
گزشتہ روز ترکی کے مشہور عالم دین، جلیل القدر محدث الشیخ محمد امین سراج استنبول میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر92 برس سے زائد تھی۔جامعہ ازہر کے فاضل شیخ امین سراج کو آخری عثمانی عالم دین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ وہ ترکی کے بہت بڑے عالم و اسکالر اور تین نسلوں کے مربی تھے۔ شیخ نے پوری زندگی علم دین کی خدمت کرتے گزار دی۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شیخ امین سراج ترکی کے توقاد نامی دیہی علاقے میں پیدا ہوئے۔ جب ہوش سنبھالا تو ترک ناداں خلافت کی قبا چاک کرکے سیکولرازم کی چادر اوڑھ چکا تھا۔ اس لئے علمی گھرانہ ہونے کے باوجود دینی تعلیم بلکہ قرآن کریم پڑھنا بھی آسان نہ تھا۔ ان کے والد حافظ مصطفی افندی عالم دین تھے۔ گھر پر ہی بچوں کو حفظ قرآن شروع کرا دیا۔ مگر سیکولر حکام کو پتہ چلا تو انہیں گرفتار کرکے 6 ماہ تک جیل میں بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد والد نے ننھے سراج کو حصول علم کے لئے مرزیفون نامی علاقہ بھیج دیا۔ وہاں چھپ کر تین برس تک علم حاصل کرتے رہے۔ پھر وہاں سے استنبول چلے گئے۔ جہاں جامع مسجد الفاتح کے امام صاحب عمر افندی نے انہیں ٹھکانہ دیدیا۔ پھر انہوں نے استنبول میں الشیخ سلیمان افندی کے پاس صحیح بخاری پڑھ کر حدیث کی اجازت حاصل کی۔ بخاری شریف کے علاوہ، مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت حدیث و تفسیر کی دیگر مستند کتابیں بھی ان سے درساً پڑھ لیں۔
شیخ امین سراج بعد ازاں مزید تعلیم کیلئے جامعہ ازہر جانا چاہتے تھے۔ مگر ویزہ نہیں مل سکا تو وہ ٹرین کے ذریعے بغداد سے ہوتے ہوئے قاہرہ پہنچنے کے ارادے سے نکلے۔ مگر بغداد سے واپس استنبول جانا پڑا۔ آگے کا سفر ممکن نہ ہوسکا۔ اس سفر میں انہیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اس سفرکے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ میرے تصور سے زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ میں استنبول سے دیار بکر پہنچا، وہاں سے ماردین تک گیا۔ مگر آگے جانا ممکن نہ ہوسکا۔ یہ جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ وہ عراق سے واپس اپنے آبائی علاقے اور پھر وہاں سے دوبارہ استنبول آئے۔ اس کے بعد ان کے دادا کے کسی جاننے نے ویزے کا انتظام کر دیا تو وہ علمی پیاس بجھانے ازہر شریف پہنچ گئے اور اس جامعہ کے کلیۃ الشریعۃ میں داخلہ لیا۔وقت کے بڑے بڑے شیوخ اور اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ جن میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی سے مصر منتقل ہونے والے جلیل القدر شیوخ بھی شامل تھے۔ ان میں مصطفی افندیؒ التوقادی اور جلیل القدر فقیہ و شیخ الاسلام حضرت علامہ زاہد الکوثری بھی قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے درجنوں تحقیقی کتب کے مصنف علامہ الکوثریؒ 1922ء میں ترکی سے مصر منتقل ہوئے تھے۔ گزشتہ صدی عیسوی میں وہ فقہ حنفی کے سب سے بڑے محقق عالم تھے۔علم فقہ کے ساتھ علم حدیث میں بھی یکتا تھے۔ 30 کتابیں انہوں نے خود تصنیف کیں۔ 36 کتابوں پر تحقیقی کام کیا۔ جبکہ 29 کتابوں کی شروحات و حواشی لکھے۔ ان کی کتب کی مجموعی تعداد 95 بنتی ہے۔ گزشتہ صدی کے کسی عالم دین کے قلم نے ان جیسا علمی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔
شیخ امین سراج پچاس کی دہائی میں جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اپنے استاذ شیخ حیدر افندی کے کہنے پر وہ واپس ترکی چلے گئے اور وہاں چار سو پھیلے سیکولر ازم کی گھٹاٹوپ ظلمت میں اپنے حصے کا چراغ جلاتے رہے۔ انہوں نے کامل 60 برس تک استنبول کی جامع الفاتح میں درس دیتے رہے۔جس کا انہوں نے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔
وہ استنبول کی محمد الفاتح یونیورسٹی میں بھی طویل عرصے تک پڑھاتے رہے۔ آخری عمر میں انہوں نے حدیث کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار طلبہ ہر وقت ان کے گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے رہتے۔ انہوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف کیں اور کئی عربی کتب کے ترک زبان میں ترجمے بھی کئے۔ جن میں سید قطب شہید کی مشہور تفسیر فی ظلال القرآن اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین بھی شامل ہے۔
1960ء کے عشرے میں انہیں زبردستی فوجی خدمت کیلئے بھرتی کیا گیا۔ اس کی تکمیل کے بعد ترک حکومت نے انہیں سرکاری شیخ کے عہدے کی پیشکش کی۔ مگر شیخ سراج نے اسے قبول کرنے سے انکار کرلیا۔
کہتے ہیں ترکی میں سیکولرازم کے بطن سے جو اسلامی بیداری کی سحر طلوع ہوئی ہے، اس میں شیخ سراج کی کاوشوں کا بھی بنیادی حصہ ہے۔ اس لئے ترک صدر اردگان نے اور سربراہ پارلیمنٹ مصطفی شنطوب نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ حق تعالیٰ شیخ سراج کی جملہ مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں اعلیٰ علیین میں مقام نصیب فرمائے۔