فائل فوٹو
فائل فوٹو

خدا کے باغی کی موت

عبید اللہ کے دورِ خلافت میں ایک شیخ بمع اپنے ساتھیوں کے گھوڑوں پر سوار ہو کر سفر کے لئے نکلا۔ وہ لوگ رات کے وقت مسجد میں ٹھہرے اور اپنے گھوڑوں کو بھی مسجد میں لے گئے۔ جب ان سے مسجد کے متولی نے پوچھا کہ تم نے اپنے گھوڑوں کو مسجد میں کیسے داخل کر لیا؟ تو ان سے شیخ اور اس کے ساتھیوں نے کہا: ان گھوڑوں کا گوبر اور پیشاب پاک ہے، کیونکہ یہ مہدی کے گھوڑے ہیں۔
مسجد کے متولی نے کہا:
’’جب مہدی کے جسم سے خارج ہونے والی چیز نجس ہے، تو اس کے گھوڑے سے نکلنے والی چیز کیسے پاک ہو سکتی ہے؟‘‘
یہ سن کر وہ لوگ بہت غصہ ہوئے اور متولی سے کہا: تم نے مہدی کی شان میں گستاخی کی ہے، یہ کہہ کر اسے پکڑ کر مہدی کے پاس لے گئے، چنانچہ مہدی نے جمعہ کی شام اس کو باہر نکالا اور قتل کر دیا۔
پھر جب وہ مرنے کے قریب تھا تو اس نے مہدی کو بد دعا دی، خدا تعالیٰ نے اس کی بد دعا قبول فرمائی اور مہدی کو ایک بری بیماری میں مبتلا کر دیا، چنانچہ اس کی بیماری کچھ اس طرح تھی کہ:
ترجمہ: ’’خدا تعالیٰ نے اس کے پیٹ میں کدو کے بیج کی شکل کے کیڑے پیدا کئے، جو اس کی آنتوں کو کھاتے تھے‘‘۔
اس کے پاس مینڈھوں کی بڑی بڑی دمیں لائی جاتیں، جن کو وہ اپنے پیٹ میں داخل کرتا، تاکہ وہ کیڑے اس کی آنتوں کو چھوڑ کر ان دموں کو کھانے میں مشغول ہو جائیں۔ اس طرح ان کے دموں میں مشغول ہونے سے اس کو کچھ راحت حاصل ہوتی، پھر جب وہ ان دموں کو باہر نکالتا تو کیڑے ان کو کھا کر پھاڑ چکے ہوتے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، آخر کار اسی حالت میں ہلاک ہو گیا۔ اس کی ہلاکت کے بعد غسانی کے بھانجے کو لایا گیا، تاکہ اس کے سر کے پاس تلاوت کرے اور وہ بہت اچھی تلاوت کرنے والا تھا، اس وقت عبید اللہ کے بیٹے اس کے گرد بیٹھے رو رہے تھے۔ بغدادی نے غسانی سے کہا: تلاوت کرو! وہ کہتے ہیں کہ میں سوچنے لگا کہ کون سی آیت پڑھوں، تو مجھے صرف یہ آیت ہی یاد آئی:
ترجمہ: ’’وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا، پھر ان کو دوزخ میں جا اتارے گا‘‘۔
پھر میں نے کوئی اور آیت پڑھنی چاہی، مگر نہ پڑھ سکا اور اسی کو بار بار دہراتا رہا، یہاں تک کہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اگر اس کے بیٹوں کو رونے سے کچھ افاقہ ہو جائے اور وہ میری تلاوت پر غور کریں، تو مجھے قتل کردیں گے، یہ سوچ کر میں وہاں سے ہٹا اور باہر نکل گیا۔
ابن عذاری مراکشی کہتے ہیں اس کے بیٹوں کا دور خلافت مستقل تین سو سال تک رہا اور وہ لوگ سبتہ کی گھاٹی سے لے کر مکہ تک کے علاقے پر قابض ہو گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا خدا کی نظر میں بہت ذلیل اور انتہائی حقیر اور بے قدرو قیمت والی جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ان کافر اور فاجر لوگوں کو اس میں اختیار دیا کہ وہ خدا کے اولیاء کو بدترین عذاب اور تکلیفیں دیں اور اپنے لئے جہنم کی آگ کو بھڑکاتے رہیں۔ (البیان المغرب 283/1 (حوالہ دعوۃ المظلوم، اردو ترجمہ مظلوم کی آہ)