کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے گجر نالے پر تجاوزات کی آڑ میں لیز مکانات کو مسمار کرنے سے متعلق درخواست پر متعلقہ اداروں سے تفصیلات اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق این ای ڈی یونیورسٹی کی اسٹڈی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
ہائیکورٹ میں گجر نالے پر تجاوزات کی آڑ میں لیز مکانات کو مسمار کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ خواجہ محمد الطاف ایڈووکیٹ نے موقف دیا گجر نالے پر تجاوزات کی آڑ میں لیز مکانات تو بھی توڑا جارہا ہے۔ لیز مکانات توڑنے سے روکا جائے۔
اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا گجر نالے پر مختلف مقامات پر مختلف چوڑائی رکھی جارہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے جن کے گھر نالے کی زد میں آرہے ہیں ان کو نوٹس کیوں نہیں دیے گئے؟
سرکاری وکیل نے موقف دیا شہریوں کو لیز مکانات توڑنے پر اعتراض ہے تو دستاویزات لے کر ڈپٹی کمشنر کے پاس جائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے شہری ڈپٹی کمشنر کے پاس کیوں جائیں، ڈپٹی کمشنر کو ان کے پاس جانا ہوگا۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کسی کا گھر توڑ دیا جائے اور کہا جائے معاوضہ دینے کا سوچتے ہیں۔
عدالت نے سندھ حکومت اور شہری حکومتی اداروں پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے ریمارکس دیئے لوگوں کے چالیس چالیس سال پرانی لیز والے گھروں کو کیوں توڑا جارہا ہے؟ گجر نالے کے اطراف میں کے ایم سی کچی آبادی یا پھر کسی ادارے نے تو لیز دی ہوگی؟ انکروچمنٹ ہیں تو لیز دیتے وقت ان اداروں نے تعین کیوں نہیں کیا؟
عدالت نے استفسار کیا جن کے لیز گھر توڑے جارہے ہیں، انہں معاوضہ کون دے گا؟ یہ تو نہیں ہوسکتا گھر شہری حکومت توڑ دے اور کہا جائے معاوضہ سندھ حکومت دے گی۔ شہری حکومت اور سندھ حکومت تعین کرے شہریوں کو متبادل زمین کو دے گا؟ بتایا جائے جن کے لیز گھر توڑے جارہے رہیں ان کو کس طرح دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا؟
اسسٹنٹ کمشنر گلبرگ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر این ای ڈی یونیورسٹی کے پلان کے مطابق گھروں پر مارکنگ کی گئی ہے۔
جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے ریمارکس دیئے کراچی میں ہزاروں گھر توڑے جارہے ہیں کوئی گائیڈ لائنز تو بنائی ہوں؟ گجر نالہ کتنا چوڑا کیا جارہا ہے کتنے گھر توڑے جارہے ہیں؟ عدالت نے 12 مارچ کو متعلقہ اداروں سے تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ عدالت نے تجاوزات کے خاتمے سے متعلق این ای ڈی یونیورسٹی کی اسٹڈی رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیدیا۔