واشنگٹن: امریکی خفیہ ایجنسی نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ استنبول کے قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کی منظوری سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دی تھی تاہم سعودی عرب نے رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ’’امریکی انٹیلیجنس کی کوآرڈینیٹر ایورل ہینس‘‘ نے ترکی کے قونصل خانے میں سعودی خاندان کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو بیدردی سے قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کرنے کے واقعے کی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ جوبائیڈن انتظامیہ کو دیدی ہے۔
ادھر سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گيا ہے کہ اس معاملے میں تمام ضروری عدالتی اقدامات کیے ہیں اور سعودی عدالتوں نے ملزمان کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے انہیں سزائیں بھی سنائیں اور خود جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے ان سزاؤں کا خیر مقدم کیا تھا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کی گرفتاری اور قتل کے لیے ذاتی طور پر منظوری دی تھی۔ رپورٹ میں ذمہ داروں کے تعین کے نتیجے میں امریکا نے سعودی عرب کے 76 شہریوں پر پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔
جن 76 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کی گئی ہیں ان کے حوالے سے امریکا کی نئی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ افراد ’بیرون ملک مقیم شہریوں کے لیے خطرہ‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان افراد میں سعودی انٹیلی جنس، دفاع سمیت اہم اداروں کے ارکان شامل ہیں۔
سعودی عرب نے پہلے تو واشنگٹن پوسٹ کے جلاوطن سعودی صحافی کے قتل کی تردید کی تھی تاہم بعد میں نہ صرف قتل کی تصدیق بلکہ 5 ملزمان کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی اور جمال خاشقجی کے بیٹے نے والد کے قاتلوں کو معاف بھی کردیا تھا۔
واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے کے اندر قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کردیئے گئے تھے اور پھر کبھی ان کی باقیات نہیں مل سکی تھیں۔