وجیہ احمد صدیقی:
ماہرین معیشت کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ پاکستان کے89 فیصد شہریوں کی رائے ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔
گیلپ اور گیلانی پاکستان کی جانب سے پیر کے روز جاری سروے کے مطابق 55 فیصد پاکستانیوں کی یہ مستحکم رائے ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے ملکی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جبکہ 22 فیصد کی یہ رائے ہے کہ کورونا وبا کے پاکستانی معیشت پر کچھ حد تک منفی اثرات پڑے ہیں۔ 12 فیصد کی یہ رائے ہے کہ اس کے پاکستانی معیشت پر کم منفی اثرات پڑے ہیں۔ مجموعی طور پر کورونا وبا کے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات کو تسلیم کرنے والوں کی تعداد 89 فیصد ہے۔ جبکہ صرف چار فیصد کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں ہوئے۔ جبکہ سات فیصد افراد نے کوئی جواب نہیں دیا یا پھر یہ کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
گیلپ اور گیلانی پاکستان کے سروے نے پاکستانیوں کو ہوشیار کیا ہے کہ کورونا کی آنے والی نئی لہر سے کس طرح نمٹنا ہے۔ ایک پاکستانی ماہرِ معیشت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دنیا بھر کی معیشتوں کو اس وبا کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔ بھارت کا 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن پاکستان کا نقصان 5 ارب ڈالر کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کا تمام تر انحصار آئی ایم ایف اور بیرونی امداد پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جو بھی ماہرین اقتصادیات آتے ہیں، وہ بیرون ملک سے آتے ہیں۔ وہ پاکستان کے وسائل کو پاکستان کے لیے استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا عالمی منڈی کے ساتھ کوئی مستحکم رشتہ نہیں۔ پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو کمزور کیا جارہا ہے۔ کورونا سے پہلے پاکستانی معیشت کی شرح نمو 2 سے 2.50 فیصد تھی۔ لیکن کورونا کے بعد یہ منفی 00.04 ہوگئی۔ پاکستان کو یہ فائدہ ہوا تھا کہ اس دوران آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہوگیا تھا۔ لیکن پاکستانی عوام تک اس کے مثبت اثرات نہیں پہنچنے دیے گئے۔
مذکورہ اقتصادی ماہر کی جانب سے پاکستانی معیشت کا نوحہ اپنی جگہ، لیکن موجودہ حکومت نے ملک کے تعلیمی نظام کو سب سے زیادہ زک پہنچائی ہے۔ اس نے تعلیمی ادارے بند کردیے اور یہ کہا کہ آن لائن تعلیم دی جائے گی۔ یہ جانے بغیر کہ ہر گھر میں 4 سے 6 بچے تو ہوتے ہیں، لیکن ہر ایک کے پاس اپنا کمپیوٹر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر گھر میں انٹر نیٹ کی سہولت ہوتی ہے۔ لہذا طلبہ کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہی۔ دوسری جانب اسی حکومت نے کمپیوٹرز اور اس سے متعلقہ آلات اور موبائل فون پر اس قدر ٹیکس لگا دیا کہ وہ عام آدمی تو کیا متوسط طبقے کے فرد کی پہنچ سے بھی دور ہوگئے۔
پاکستان میں فروری کے اختتام سے کورونا وائرس سے متعلق متعدد پابندیاں نرم کیے جانے کے بعد ایک ہفتے کے دوران وائرس کے کیسز میں خاصہ اضافہ دیکھا گیا۔ جبکہ 10 مارچ سے 60 سال سے زائد عمر کے شہریوں کو ویکیسن لگانے کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔ اس عالمی وبا کو ملک میں ایک برس سے زائد ہو چکا ہے اور اس دوران وائرس کی دو لہریں دیکھی جاچکی ہیں۔ ماہرین نے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پابندیاں نہیں لگائی گئیں تو ملک میں وائرس کی تیسری لہر آسکتی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات اور صورتحال کی نگرانی کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) قائم کیا گیا تھا جو نہ صرف پابندیوں کے نفاذ یا ہٹانے کا اعلان کرتا ہے، بلکہ وبائی صورتحال میں وسائل کی تقسیم بھی اسی کی ذمہ داری تھی۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پیر کے روز ہونے والے اعلان کے مطابق ملک میں کورونا وائرس سے مزید ایک ہزار 592 افراد متاثر ہوئے، جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 5 لاکھ 92 ہزار 100 ہوگئی۔
ادھر بھارت نے اپنا اقتصادی نقصان پورا کرنے کے لیے کورونا ویکسین کی تیار کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن بھارتی ویکسین کتنی موثر ہے؟ اس کے بارے میں کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں انٹر پول نے خبردار کیا تھا کہ عالمی سطح پر جرائم پیشہ افراد آن لائن جعلی کورونا ویکسین فروخت کرسکتے ہیں۔ اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے پیر کے روز اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ جعلی کوویڈ 19 ویکسین اور دیگر جعلی طبی مصنوعات بنانے اور تقسیم کرنے والے مجرموں کے سدباب کو یقینی بنائے۔
نیویارک میں 14 ویں کرائم کانگریس کے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں پاکستانی سفیر نے خبردار کیا کہ کوویڈ 19 نے متعدد خطرات کو بے نقاب کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری روز مرہ کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی طرح بین الاقوامی منظم جرائم پر کوویڈ 19 کا اثر نمایاں رہا ہے۔ منیر اکرم نے کہا کہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے اور ایجنڈے 2030ء کی طرف پیشرفت کو نقصان پہنچانے والے نیٹ ورکس اور پلیٹ فارم کو ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایکشن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترقی پذیر ممالک پہلے ہی محدود مالی وسائل میں وبائی مرض کے خلاف موثر اقدامات اور ایس ڈی جی کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جعلی ویکسین تیار کرنے والوں کو معمولی سی بھی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے۔ انہوں نے ماحولیاتی جرائم اور جانوروں کی غیر قانونی تجارت سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو زوناٹک بیماریاں (کوویڈ 19 جیسے مرض) کا سبب بن سکتی ہیں۔
سائنسی تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مقالے میںصحت عامہ کے ایک امریکی ماہر گیون یامی نے خبردار کیا ہے کہ اگر کورونا ویکسین کی عالمی تقسیم میں ناانصافی اور تعصب کا یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ وبا اگلے سات سال تک دنیا پر مسلط رہے گی۔ یہ انتباہ عوامی صحت اور وبائی ماہرین نے دیا ہے۔ خیال رہے کہ 4 مارچ 2021ء تک دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی 28 کروڑ 36 لاکھ خوراکیں دی جاچکی تھیں۔ تاہم اسی صورتِ حال کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 75 فیصد خوراکیں صرف 10 امیر ممالک میں دی گئی ہیں، جبکہ کئی غریب ممالک ابھی تک کورونا ویکسین سے مکمل طور پر محروم ہیں، جن کی مجموعی آبادی 2.5 ارب (ڈھائی ارب) کے لگ بھگ ہے۔