سپریم کورٹ میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کیس کی سماعت کے دوران کالا باغ ڈیم کا تذکرہ آگیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری یونیورسٹیز میں بڑی بڑی ڈگریاں دی جاتی ہیں، کیا فائدہ اتنی بڑی ڈگریوں کا جب کام کے لیے بندے باہر سے بلانا پڑتے ہیں۔
دوران سماعت چیئرمین واپڈا جنرل (ر) مزمل نے عدالت کو بتایا کہ مہمند ڈیم سے مردان، نوشہرہ اور چارسدہ میں سیلاب نہیں آئے گا، اس طرح خیبرپختونخوا کے تحفظات بھی دور ہوجائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوٹری کے قریب لندن کے دریا تھیمز کی طرز پر سندھ بیراج بنایا جارہا ہے جبکہ کراچی کو پانی فراہم کرنے والا کے فور منصوبہ واپڈا کو دیا گیا ہے۔
چیئرمین واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ ڈیمز کی تعمیر کے لیے ملک میں خام مال نہیں بن سکتا، بھاشا ڈیم کے لیے اسٹیل درآمد کرنا پڑے گا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز چلے تو باہر سے درآمد نہیں کرنا پڑے گا اور جو پیسے واپڈا نے باہر دینے ہیں وہ اسٹیل ملز کو دے۔
چیئرمین واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ مہمند ڈیم 2025ء اور دیامر بھاشا ڈیم 2028ء میں مکمل ہوگا، دونوں ڈیموں کی تعمیر کے لیے واپڈا 700 ملین روپے خود خرچ کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کے باعث چینی انجینئرز کو سفری مسائل کا سامنا ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ پاکستان میں انجینئرز موجود نہیں کیا؟ یہاں کچرا اٹھانے کے لیے چینی کمپنی کی خدمات لی جارہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اپنے ملک کے وسائل کو استعمال کیا جائے۔
چیئرمین واپڈا نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کا محل وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے، سندھ حکومت کو نہریں بنانے سمیت ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صوبوں کے تحفظات دور کیے بغیر ڈیم کیسے بنے گا؟
جس پر سپریم کورٹ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا کام مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 3 ماہ کے لیے ملتوی کردی۔