سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کردی،وکیل الیکشن کمیشن میاں عبدالروَف نے کہاکہ پریذائیڈنگ افسر پر لازم ہے کہ وہ الیکشن مٹیریل کی ترسیل کریں،پولنگ کے فوراً بعد مذکورہ اسٹاف حلقے کی حدود سے ہی باہر چلا گیا،الیکشن کمیشن کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پولنگ اسٹاف سیالکوٹ چلاگیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت جسٹس منیب اخترنے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ جگہ کا علم تو آپ کو بعد میں ہوا ،ابتدائی معلومات کے مطابق عملہ لاپتہ ہوگیا تھا،عدالت نے کہاکہ آپ کے پاس ڈرائیور، پریذائیڈنگ افسر اور پولیس کے نمبر ہوتے ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیاکہ کیا تینوں کے نمبروں پر رابطہ نہیں ہوا تھا؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ تینوں نمبرز اس وقت بند جا رہے تھے،جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ تینوں نمبرز اس وقت بند جا رہے تھے یہ نکتہ بہت اہم ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ لاپتہ پریذائیڈنگ افسران کی لوکیشن عدالت کو جمع کروا دی ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی؟ پریذائیڈنگ افسران کی لوکیشن کی قانونی حیثیت نہیں،وکیل میاں عبدالرﺅف نے کہاکہ لاپتہ 14 پریذائیڈنگ افسران حلقے سے باہر گئے تھے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپکی بات کرنے کے انداز سے معاملہ مشکوک لگ رہا ہے، جس مواد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا صرف وہ پیش کرنا ضروری ہے،فیصلہ کرتے وقت الیکشن کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا معاملہ کیا ہے؟ ۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ حلقے سے باہر جاکر پریذائیڈنگ افسران اور پولیس کے موبائیل بند ہو گئے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ دلائل کو الیکشن کمیشن کے فیصلے تک محدود رکھیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ پی ٹی آئی نے اپیل میں بدامنی ہونے کااعتراف کیا۔
عدالت نے کہاکہ سیکیورٹی انتظامات اطمینان بخش نہیں تھے، تو الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟ جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ پولنگ سے چند روز پہلے الیکشن کمیشن کو سیکیورٹی انتظامات کا پتہ تھا،ان حالات میں الیکشن کمیشن کو بڑھ کر اقدامات کرنے تھے، ریکارڈ سے یہ دکھائیں پولنگ کے روز جو کچھ ہوا وہ ڈیزائن تھا،پولنگ کے دن سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔