فائل فوٹو

حضرت اویس قرنیؒ کی ٹوپی سفید نمدے سے بنائی گئی تھی

عارف انجم:
قسط نمبر 3
لگ بھگ پانچ سو برس قبل جب بیشتر مقدس تبرکات ترکی کے توپ کاپی محل میں پہنچے تو نہ صرف سلطان سلیم اول نے محل کے اہم ترین مقام یعنی دیوان خاص کو ان کے لیے مختص کر دیا۔ بلکہ ان کے قریب قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام بھی فرمایا۔ 16 ویں صدی کے اوائل میں ان مقدس تبرکات کے قریب تلاوت قرآن کریم کا سلسلہ شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ آج بھی عقیدت مند اور سیاح جب توپ کاپی میوزیم کے اس حصے میں پہنچتے ہیں جہاں یہ تبرکات محفوظ ہیں تو وہاں انہیں قرآن پاک کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اس تلاوت کا ماخذ کوئی ٹیپ ریکارڈ نہیں ہوتا۔ بلکہ حفاظ خود یہاں بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں۔ حفاظ کرام مختلف شفٹوں میں رات دن ہر وقت یہاں موجود ہوتے ہیں اور تلاوت جاری رکھتے ہیں۔ عقیدت مند اور سیاح ان حفاظ کو ایک کونے میں بیٹھا دیکھ سکتے ہیں۔ حفاظ کے لیے میز کرسی رکھ کر جگہ مختص کی گئی ہے۔ ماضی میں حفاظ روایتی اسلامی طریقے سے زمین پر بیٹھتے تھے۔ تلاوت کرنے والے حافظ کے لیے مفتی ہونا بھی شرط ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں پر تلاوت کا موقع ملنے کو ترک علما کس قدر اعزاز کی بات سمجھتے ہیں۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دیگر انبیائے کرامؑ اور مقدس ہستیوں سے گہری عقیدت کا یہ عالم آج بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن پانچ سو برس قبل پہلی بار جب یہ تبرکات توپ کاپی محل لائے گئے تو اس وقت کیا عالم ہوگا؟ گو کہ ہم چشم تصور سے بھی اس منظر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر اور ’’مقدس امانتیں‘‘ کے مصنف حلیم ایدین نے ہماری رہنمائی کر رکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شروع دن سے ہی توپ کاپی محل میں ان تبرکات کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق لوگ آنے لگے۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے لبریز دل تھے۔ جو اپنے سکون کے لیے یہاں پہنچتے تھے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور امید ہے کہ جاری رہے گا۔
حلمی ایدین کے مطابق توپ کاپی میوزیم میں ان تبرکات کو بڑی عرق ریزی کے بعد ایک خاص ترتیب میں رکھا گیا ہے۔ جیسے ہی کوئی شخص یہاں داخل ہوتا ہے۔ وہ یکایک خود کو اللہ کا قرب رکھنے والی ان شخصیات کے قریب پاتا ہے۔ باہر کی دنیا یہاں سے دور محسوس ہوتی ہے۔ ایک الگ ہی احساس پیدا ہوتا ہے۔ ایسا کہ انسان یہیں ٹھہر جائے۔ کبھی نہ جائے۔ جب پرنور شخصیات سے وابستہ ان تبرکات پر نظر ٹھہرتی ہے تو وقت رکتا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وقت ایک چراغ میں بند ہوگیا ہے۔ ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ حلمی ایدین لکھتے ہیں کہ سیاح یہاں آکر خیالات میں کھو جاتے ہیں۔ ان پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ تبرکات میں سے ہر ایک زندہ محسوس ہوتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں پڑھے گزرے دور کے واقعات ان کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ غور سے سنتے ہیں۔ اس جگہ کا ماحول انہیں سحر انگیز معلوم ہوتا ہے۔
توپ کاپی محل کے دیوان خاص میں کئی تبرکات تو شروع سے ہی رکھ دیئے گئے تھے۔ ان میں بردہ شریف (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی چادر مبارک) بھی شامل ہے۔ ترک اسے ’’خرقہ سعادت‘‘ کہتے ہیں۔ (انگریزی میں خرقہ کے ہجے Hirka لکھے جاتے ہیں۔ تاہم ترکی میں H کا حرف خ کے لیے استعمال ہوتا ہے)۔ اسی مناسبت سے توپ کاپی محل کا یہ حصہ خرقہ سعادت دیرایسی کہلاتا ہے۔ جس کے لفظی معنی ’’خرقہ سعادت کا گھر‘‘ بنتے ہیں۔ خرقہ سعادت یا بردہ شریف کو جب توپ کاپی محل لایا گیا تو دیوان خاص کے اس کمرے کو شرف میزبانی حاصل ہوا۔ جہاں ترک سلطان کا تاج رکھا جاتا تھا۔ سلطان سلیم اول کے دور اور اس کے بعد کی کچھ صدیوں تک جہاں بردہ شریف دیوان خاص میں محفوظ تھا۔ وہیں اس کے گرد کے کمرے دیگر استعمال میں تھے۔ جبکہ کچھ تبرکات محل کے دوسرے حصوں میں رکھے گئے تھے۔ مجموعی طور پر دیوان خاص میں 8 کمرے ہیں۔ جن میں سے چند بعد میں تعمیر کرائے گئے۔ 19 ویں صدی کے آغاز میں سلطان محمود دوم نے تبرکات دیوان خاص کے اردگرد کے کمروں میں منتقل کر دیئے۔ آج یہ پوری جگہ خرقہ سعادت دیرایسی کہلاتی ہے۔
توپ کاپی محل کے اندر اس عمارت کے چار کمروں میں تبرکات ہیں۔ پہلا کمرہ تو وہی ہے جس میں خرقہ سعادت یا بردہ شریف کو رکھا گیا ہے۔ اسی کمرے میں نبی اکرمؐ کا ایک پرچم مبارک بھی ہے۔ اس کمرے سے متصل ایک اور کمرے کا نام ’’عرض خانہ‘‘ انگریزی میں (Chamber Audience) ہے۔ جہاں پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک، موئے مبارک، مہر مبارک، خطوط اور دیگر تبرکات موجود ہیں۔ ان دو کمروں کے سامنے کی جگہ کو شادروانلی صوفہ کہتے ہیں۔ شادروان ترکی میں فوارے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن توپ کاپی محل کے دیوان خاص میں یہ کمروں کے درمیان واقع کھلی جگہ اور اس سے متصل کمرہ ہے۔ اس کمرے میں خانہ کعبہ کی چابیاں، حجرہ اسود کا سونے کا کور اور صحابہ کرامؓ کی تلواریں موجود ہیں۔ چوتھا کمرہ دستمال چیمبر کہلاتا ہے۔ یہاں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیر استعمال رہنے والا برتن، حضرت داؤد علیہ السلام کی تلوار اور دیگر تبرکات موجود ہیں۔ یہ کمرہ شادروانلی صوفہ کے بالکل ساتھ اور خرقہ سعادت والے کمرے کے بالمقابل ہے۔
دیوان خاص کے تمام کمروں کی چھتیں گنبد نما ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دیواروں پر خوبصورت رسم الخط میں قرآنی آیات اور مقدس نام تحریر ہیں۔ یہاں پر بغیر اجازت تصویر کشی کی اجازت نہیں۔ بعض سیاح چوری چھپے تصاویر بنا لیتے ہیں۔ لیکن عقیدت مندوں کی پیاس بجھانے کے لیے ترک حکومت خود مقدس تبرکات کی تصاویر جاری کرتی ہے۔ حلمی ایدین کی کتاب ’’مقدس امانتیں‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔تصویر کے ساتھ ڈیپ کیپشن

توپ کاپی محل اور سلطنت عثمانیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ترک سلاطین رمضان المبارک میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہار عقیدت کے لیے کئی تقاریب کا اہتمام کرتے تھے۔ تاہم ان سلاطین سے صدیوں قبل عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بہت بڑی مثال حضرت اویس قرنیؒ کی ہے۔ حضرت اویس قرنی عشق رسول کے ایسے مرتبے پر فائز تھے کہ روایت کے مطابق اس پر صحابہ کرامؓ بھی رشک کرتے تھے۔ آپ نے عہد نبوی پایا۔ لیکن آپ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات نہیں ہو سکی اور حافظ ابو نعیمؒ نے ’’حلیۃ الولیائ‘‘ (2/87) میں اصبغ بن زید سے نقل کیا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کا خیال رکھنے کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے تھے۔
حضرت اویس قرنیؒ کے حوالے سے صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1748 میں یوں بیان ہوا ہے۔ ترجمہ: حضرت اسَیر بن عَمروؓ جنہیں ابن جابر بھی کہا جاتا ہے، بیان کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت سیِدنا عمر بن خطابؓ کے پاس جب یمنی مددگار مجاہدین کے قافلے آتے تو آپ ان سے دریافت فرماتے: ’’ کیا تم میں اویس بن عامر ہیں؟‘‘ یہاں تک کہ (ایک قافلے میں) جب سیدنا اویس قرنی کے پاس پہنچے تو سیدنا فاروقِ اعظم نے پوچھا: ’’کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں‘‘۔ فرمایا: ’’کیا آپ قبیلہ مُراد اور قَرَن سے ہیں؟‘‘۔ کہا ’’جی ہاں‘‘۔ فرمایا: ’’کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو ایک درہم کی جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی؟‘‘۔ کہا ’’جی ہاں‘‘۔ فرمایا: ’’کیا آپ کی والدہ ہیں؟‘‘۔ کہا ’’جی ہاں‘‘۔ سیدنا فاروقِ اعظم نے فرمایا: ’’میں نے حضور نبی رحمت شفیع اُمّت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تمہارے پاس یمنی مددگار مجاہدین کے قافلوں کے ہمراہ اویس بن عامر آئیں گے۔ وہ قبیلہ مراد اور (اس کی شاخ) قرن سے ہوں گے۔ انہیں برص کی بیماری تھی۔ پھر ایک درہم کے برابر جگہ کے علاوہ ٹھیک ہوچکی ہوگی۔ ان کی والدہ بھی ہوں گی اور وہ ان کے ساتھ نیکی کرنے والے ہوں گے۔ اگر وہ کسی چیز پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری فرمادے گا۔ اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لیے مغفرت کی دعا کرانا‘۔ لہٰذا اپ میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے‘‘۔ چنانچہ حضرت سیدنا اویس قرنی نے سیدنا فاروقِ اعظم کے لیے دعا مانگی۔ پھر سیدنا فاروقِ اعظم نے پوچھا: ’’اب آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘۔ کہا ’’کوفہ‘‘۔ فرمایا: ’’کیا میں آپ (کی خدمت) کے لیے کوفہ کے حکمران کے نام خط نہ لکھ دوں؟‘‘۔ کہا ’’مجھے غرباء میں رہنا پسند ہے‘‘۔
پھر آئندہ سال کوفہ کے سرداروں میں سے ایک آدمی حج کے لیے آیا تو اس کی ملاقات سیدنا فاروقِ اعظم سے ہوئی۔ آپ نے اس سے سیدنا اویس قرنی کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میں انہیں شکستہ گھر اور کم سامان کے ساتھ چھوڑ کر آیا ہوں‘‘۔
روایت کے مطابق سیدنا فاروقِ اعظم نے پھر وہی حدیث بیان کی۔ جو انہوں نے حضرت اویس قرنی کے سامنے بیان کی تھی۔
صحیح مسلم میں آگے درج ہے، چنانچہ یہ شخص بھی جب سیدنا اویس قرنی کے پاس پہنچا تو ان سے عرض کی ’’میرے لیے بخشش کی دعا کر دیجئے‘‘۔ سیدنا اویس قرنی نے فرمایا: ’’تم ایک نیک سفر (یعنی حج) سے واپس آرہے ہو۔ تم میرے لیے دعا کرو‘‘۔ اس نے پھر آپ سے عرض کی کہ ’’آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر دیجئے‘‘۔ فرمایا: ’’تم ایک نیک سفر سے واپس آرہے ہو۔ تم میرے لیے دعا کرو‘‘۔ پھر سیدنا اویس قرنی نے پوچھا: ’’کیا تمہاری ملاقات امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم سے ہوئی تھی؟‘‘۔ عرض کی ’’جی ہاں‘‘۔ پھر سیدنا اویس نے اس کے لیے بخشش کی دعا کی۔ تب لوگوں کو سیدنا اویس قرنی کے مقام و مرتبے کا علم ہوا اور پھر آپ وہاں سے چلے گئے۔
توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کے مطابق حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی کو اپنا لباس بھیجا تھا اور اس ضمن میں حضرت عمر کو حکم دیا تھا۔ یہ لباس حضرت اویس قرنی کے بڑے بھائی کے بچوں نے محفوظ رکھا۔ کیونکہ حضرت اویس قرنی کی کبھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ بعد ازاں حضرت اویس قرنی کی نسل میں سے شکراللہ آفندی یہ لباس 1618ء میں قسطنطنیہ لے کر آئے۔ اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ چغہ مبارک فتح شہر کی مسجد میں موجود ہے۔ ترکی میں نبی اکرمؐ کے دو ملبوسات ہیں۔ دونوں کو ترکی میں خرقہ کہا جاتا ہے۔ تاہم توپ کاپی میوزیم میں موجود لباس کو خرقہ سعادت کہتے ہیں۔ جبکہ حضرت اویس قرنی کے خاندان سے حاصل ہونے والے لباس کو خرقہ شریف کہتے ہیں۔ یہ لبادہ فتح شہر کی جس مسجد میں رکھا گیا ہے۔ اسے خرقہ شریف مسجد کہا جاتا ہے۔ ان تبرکات سے متعلق تفصیل کل سے انشاء اللہ انہی صفحات پر فراہم کی جائے گی۔
توپ کاپی میوزیم میں عظیم عاشق رسول حضرت اویس قرنی کی اپنی ایک ٹوپی موجود ہے۔ میوزیم حکام کے مطابق سفید رنگ کی یہ ٹوپی سفید نمد سے بنائی گئی ہے۔ نمد ایک دبیز کپڑا ہوتا ہے۔ جو پشم کو صابن وغیرہ کی لاگ سے جما کر بناتے ہیں۔ اسی مناسبت سے نرم بالوں کے بچھونا یا قالین وغیرہ کو بھی نمدا کہا جاتا ہے۔ چونکہ نمد کے بکھرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لہذا حضرت اویس قرنی کے اس تبرک کو کناروں سے سبز کپڑے میں سی دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ٹوپی کا بڑا حصہ واضح دیکھا جا سکتا ہے۔