عارف انجم:
قسط نمبر 4
خرقہ سعادت یا بردہ شریف کی عثمانی سلاطین کے لیے غیر معمولی اہمیت تھی۔ وہ ہر سال رمضان المبارک میں غیر معمولی اہتمام کے ساتھ اس کی زیارت کا اہتمام کرتے تھے۔ اس سلسلے میں تقریب منعقد ہوتی۔ جس میں عمائدین اور دیگر لوگ شریک ہوتے۔ خرقہ سعادت کی زیارت کا غیر رسمی معمول اس کے علاوہ تھا۔
ترک سلاطین نبی اکرم سے منسوب اس نشانی کو اتنا عزیز رکھتے کہ اگر انہیں طویل عرصے کے لیے توپ کاپی محل سے دور جانا پڑتا تو خرقہ شریف کو بھی ساتھ لے جاتے۔ جہاں پران کا پڑاؤ ہوتا۔ وہاں خرقہ شریف کو رکھنے کے لیے خصوصی مقام تیار کیا جاتا۔ آخری مرتبہ سلطان عبدالعزیز بروصہ کے سفر کے دوران خرقہ شریف کو ساتھ لے کر گئے تھے۔
کئی سلاطین نے خرقہ سعادت کو جنگوں کے دوران ساتھ رکھا ہے۔ جب 1596ء سے 1603ء کے دوران سلطان محمد سوم یورپی علاقے فتح کرنے کی مہم پر تھے تو وہ خرقہ سعادت اور موئے مبارک ساتھ لے کر گئے۔ ترک روایت کے مطابق جب عثمانی افواج کو شکست کا سامنا ہوا تو خواجہ سعدالدین آفندی نے انہیں مشورہ دیا ’’میرے سلطان، عثمانی سلطان اور خلیفہ ہونے کے ناطے آپ کے لیے مناسب ہوگا کہ آپ خرقہ شریف پہن کر خدا سے دعا مانگیں‘‘۔ روایت ہے کہ سلطان محمد سوم نے ایسا ہی کیا اور انہیں فتح حاصل ہوگئی۔
خرقہ سعادت کی غیر معمولی تعظیم کا آغاز اس مبارک لبادے کی توپ کاپی محل آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی کتاب کے مطابق 1517ء میں مملوکوں پر فتح اور خلافت سنبھالنے کے بعد سلطان سلیم اول نے معمول بنا لیا کہ وہ ہر برس 15 رمضان المبارک کو بطور خاص خرقہ سعادت کی زیارت کرنے آتے۔ اس موقع پر باقاعدہ تقریب منعقد ہوتی۔ جس کی تیاریاں پہلے سے کرلی جاتیں۔ اعلیٰ عمائدین، علما، وزرا اور دیگر معززین کو بوتلوں میں خوشبویات بھیجی جاتیں۔ جو زیارت میں شرکت کا دعوت نامہ تھیں۔ اعلیٰ سرکاری عہدیدار عام تقریبات میں سینے پر میڈلز سجاتے تھے۔ لیکن چونکہ خرقہ سعادت کو چومنے کے لیے جھکتے وقت ان میڈلز کے مقدس لبادے میں الجھنے کا خدشہ ہوتا تھا۔ اس لیے زیارت کے موقع پر کسی قسم کا میڈل پہننے کی اجازت نہیں تھی۔
تقریب سے ایک دن پہلے 14 رمضان المبارک کو خرقہ سعادت کو دیوان خاص کے مخصوص کمرے سے نکال کر ریون کوشکوہ (مینشن) منتقل کر دیا جاتا۔ ریون کوشکوہ میں خرقہ سعادت تمام وقت مخصوص صندوق میں ہی رہتا۔ خرقہ سعادت کی منتقلی کے بعد سلطان خود اور ان کے قریبی ساتھی دیوان خاص کے اس کمرے کی صفائی کرتے جو خرقہ سعادت کی میزبانی کرتا ہے۔ سلطان اور عمائدین اس کام کو اعزاز سمجھتے تھے۔ کمرے کی دیواروں کو عرق گلاب سے دھویا جاتا۔ خوشبوئیں چھڑکی جاتیں۔ کمرے کو خوب چمکایا جاتا۔ اس کے بعد خرقہ سعادت کو واپس اپنی جگہ پر منتقل کر دیا جاتا۔
بالآخر 15 رمضان المبارک کو سرکاری عہدیدار، علما اور فوجی افسران ظہر کے وقت توپ کاپی محل کے دروزے پر جمع ہوجاتے اور وزیراعظم کا انتظار کرتے۔ ترک شیخ الاسلام آیا صوفیا مسجد میں پہنچ کر نماز کی امامت کراتے۔ اسی وقت وزیراعظم بھی ان کے ساتھ آ ملتے۔ نماز کے بعد یہ جلوس دیوان خاص کی طرف روانہ ہو جاتا۔ جہاں خرقہ شریف اور دیگر مقدس تبرکات موجود ہیں۔ سلطان اپنے کمرے میں نماز کی ادائیگی کے بعد اس جلوس کے استقبال کے لیے دیوان خاص کے دروازے پرموجود رہتے۔
عمائدین اور افسران کا جلوس پہنچنے سے دو گھنٹے پہلے خرقہ سعادت کا سنہرے رنگ کا صندوق زیارت کے لیے مخصوص جگہ رکھ دیا جاتا۔ قرآن پاک کی تلاوت جاری رہتی۔ سب سے پہلے سلطان خود کمرے میں داخل ہوتے۔ ان کے پیچھے عہدے کے اعتبار سے شیخ الاسلام، وزیراعظم اور دیگر علما و حکام آتے۔ سلطان چابی سے خرقہ سعادت کا سنہرا صندوق کھولتے۔ سات غلافوں میں لپٹا خرقہ سعادت نکالا جاتا۔ سلطان خرقہ سعادت کو اٹھا کر چومتے اور آنکھوں اور چہرے سے لگاتے۔ اس کے بعد شیخ الاسلام، وزیراعظم اور سلطان کی اجازت رکھنے والے دیگر عمائدین خرقہ شریف کو عقیدت سے چومتے اور آنکھوں سے لگاتے۔ یکے بعد دیگرے یہ افراد خرقہ سعادت کو چوم کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹتے جاتے۔ اس کے بعد سنہرے رنگ کا ایک بڑا برتن نکالا جاتا۔ اس میں آب زم زم بھرا ہوتا تھا۔ خرقہ سعادت کے نچلے حصے کو اس آب زم زم میں تر کیا جاتا۔ آخر میں خرقہ شریف کو برتن سے نکال کر خشک کرلیا جاتا۔ اس طرح وہ جگہ بھی صاف ہوجاتی جہاں عمائدین نے بوسہ دیا ہوتا تھا۔
خرقہ سعادت کو دھونے کے لیے استعمال ہونے والا آب زم زم صراحی نما جگوں میں بھرا جاتا اور عمائدین میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے صراحی نما جگ آج بھی توپ کاپی میوزیم میں موجود ہیں۔
خرقہ شریف کی زیارت کا یہ سلسلہ صدیوں جاری رہا۔ البتہ بوسہ دینے کی روایت بعد میں ترک کردی گئی۔ تاکہ نبی اکرم ﷺ سے منسوب لبادے کو نقصان نہ پہنچے۔ اس کے بجائے عثمانی سلطان ہر برس پندرہ رمضان کو ململ کے رومالوں کو خرقہ سعادت سے مس کرتے اور یہ رومال عمائدین کو بھیج دیئے جاتے۔ جو انہیں انتہائی عقیدت کے ساتھ وصول کرتے۔
ہر سال 15 رمضان کو خرقہ سعادت کی زیارت کے بعد سلطان کچھ دیر آرام کرتے۔ اس کے بعد روزہ افطار کیا جاتا اور خصوصی عشائیے کا اہتمام کیا جاتا۔
رمضان المبارک میں خرقہ سعادت کی زیارت کے لیے یہ پرشکوہ تقریب صدیوں تک ہر برس منعقد ہوتی رہی۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود مقدس تبرکات میں سب سے زیادہ اہمیت نبی اکرم ﷺ کے بردہ شریف کو دی جاتی ہے۔ اس چادر نما لبادے کو ترک ’’خرقہ سعادت‘‘ کہتے ہیں۔ خرقہ کے اردو میں معنے ’’لبادہ‘‘ کے لیے جاتے ہیں۔ عربی میں اسے ’’بردہ شریف‘‘ کہا جاتا ہے اور اسی کی نسبت سے قصیدہ بردہ شریف مشہور ہے۔ برصغیر کی روایات میں اسے چادر مبارک بھی کہا جاتا ہے۔ گو کہ اس کی آستینیں بھی ہیں۔ یہ وہ لبادہ مبارک ہے جو حضرت محمد ﷺ نے عرب کے مشہور شاعر کعب بن زہیرؓ کو عطا کی تھی۔ زیادہ معروف قصیدہ بردہ شریف امام بوصیریؒ کا کہا ہوا ہے۔ لیکن پہلا قصیدہ بردہ شریف کعب بن زہیر نے کہا تھا۔
کعبؓ اور ان کے بھائی بحیر کے باپ زہیر زمانہ جاہلیت کے معروف شاعر تھے۔ شاعری دونوں بھائیوں کو ورثے میں ملی تھی۔ روایت ہے کہ ظہور اسلام کے بعد آنحضرتﷺ کا شہرہ سن کر دونوں کو آپ سے ملنے اورآپ کی باتیں سننے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ دونوں بھائی ملنے کے لیے چلے۔ ترک روایت کے مطابق کعب بن زہیر شروع میں اسلام مخالف تھے اور فتح مکہ کے بعد چھپتے پھر رہے تھے۔ پھر انہوں نے مدینہ جانے کا فیصلہ کیا۔ روایت کے مطابق مدینہ کے قریب مقام ابرق الغراف پہنچ کر بحیر نے کعب سے وہیں رکنے کو کہا اور خود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دل میں عناد و سرکشی کا مادہ نہ تھا۔ اسی وقت مشرف باسلام ہو گئے۔ کعب کو ان کے اسلام کی خبر ہوئی تو انہوں نے جوشِ انتقام میں آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کی شان میں گستاخانہ اشعار کہہ ڈالے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ اشعار سنے تو آپ کو بڑی تکلیف پہنچی اورآپ نے اعلان کر دیا کہ کعب جہاں ملے۔ اس کا کام تمام کر دیا جائے۔
بحیر اس اعلان سے بہت گھبرائے اورکعب کو لکھ بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہارا خون ہدر کر دیا ہے۔ اب تمہارے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ تم اسلام قبول کرلو۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو شخص بھی آکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دیتا ہے۔ آپ اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں۔ اس لیے میرا خط پاتے ہی تم بلا تاخیر مشرف بہ اسلام ہوجاؤ۔ کعب کو بھی اس کے سوا بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ اس لیے وہ خط پاتے ہی سیدھے مدینہ پہنچے اور مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ صحابہ کرامؓ کے حلقہ میں تشریف فرما ان سے گفتگو فرما رہے تھے۔ کعب نے آپ ﷺ کو دیکھا نہ تھا۔ قیاس و قرینہ سے پہچان کر آپ ﷺ کے پاس آکر بیٹھ گئے اور اشہد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ کہہ کر امان کے طالب ہوئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم کون ہو۔ عرض کیا کعب بن زہیر۔ فرمایا، تم ہی نے وہ اشعار کہے تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ سے استفسار فرمایا۔ ابوبکر وہ کون سے اشعار ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اشعار سنائے۔ لیکن کعب نے کہا، یا رسول اللہ میں نے اس طرح نہیں کہا تھا۔ پھر انہوں نے ’’مامور‘‘ کے لفظ کو ’’مامون‘‘ کے لفظ سے بدل کر سنا دیا۔ رحمتِ عالم ﷺ کے دربار میں اس قدر اظہار ندامت کافی تھا۔ آپ ﷺ نے کعب کی گزشتہ خطاؤں سے درگزر فرمایا اور ارشاد ہوا۔ تم مامون ہو۔ پھر کعب نے اپنا معروف قصیدہ بردہ شریف سنایا۔ جو اسی وقت کے لیے کہہ کر لائے تھے۔ اسے قصیدہ بانت سعاد بھی کہتے ہیں۔ اس حسن تلافی سے خوش ہو کر نبی اکرم ﷺ نے اپنا لبادہ مبارک کعب بن زہیرؓ کو عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کعب بن زہیر کے قصیدے کو قصیدہ بردہ شریف بھی کہا جاتا ہے۔ (حوالہ السیرۃ النبویہ ابن ہشام مؤلف: عبد الملک بن ہشام، ناشر: شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی مصر)۔
ترک روایات کے مطابق کعب بن زہیر نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ میں نے سنا ہے جو اسلام قبول کرے گا اس کی ماضی کی غلطیاں معاف کر دی جائیں گی۔ جب نبی پاک ﷺ نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا، ’’حتیٰ کہ کعب بن زہیر کی بھی؟‘‘۔ جب نبی اکرم ﷺ نے اس پر بھی اثبات میں جواب دیا تو کعب بن زہیر نے اپنی شناخت ظاہر کر دی اور پھر ایک قصیدہ کہا۔ جو قصیدہ بردہ شریف کے نام سے مشہور ہوا۔ نبی اکرم ﷺ نے خوش ہو کر انہیں خرقہ سعادت عنایت کی۔
مختلف روایات کے مطابق نبی اکرم ﷺ کی جانب سے عنایت کیا گیا لبادہ مبارک کعب بن زہیر کے پاس موجود تھا۔ امیر معاویہؓ نے اپنے زمانے میں یہ لبادہ کعب کی اولاد سے بیش قرار رقم پر خریدا۔ ترک روایات کے مطابق امیر معاویہ کعب بن زہیر سے ان کی زندگی میں ہی یہ چادر مبارک خریدنا چاہتے تھے۔ لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ کعب بن زہیر کے بعد ان کے ورثا نے یہ بردہ شریف امیر معاویہ کو دے دیا۔ اس کے بعد یہ مسلم حکمرانوں کے پاس محفوظ رہا۔ اموی خلفا سے ہوتا ہوا عباسی خلفا تک پہنچا اور پھر سلطان سلیم اول کی مملوکوں پر فتح کے نتیجے میں ترکوں کے پاس آگیا۔ اس وقت سے یہ توپ کاپی محل میں موجود ہے۔
خرقہ سعادت یا بردہ شریف کی لمبائی ایک اعشاریہ 24 میٹر ہے۔ اسے اون سے بنایا گیا ہے۔ اس کی آستینیں کھلی ہیں۔ اس کی رنگت سیاہ ہے۔ جبکہ اس پر مختصر ٹکڑے میں کریم (ملائی) رنگت کی اون استعمال ہوئی ہے۔ خرقہ سعادت کو ایک غلاف میں لپیٹنے کے بعد اس کے مخصوص صندوق میں رکھا جاتا ہے۔ سبز، سلور اور سیاہ رنگوں سے بنے مذکورہ غلاف پر خلفائے راشدین کے ناموں کی کڑھائی کی گئی ہے۔
توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کے مطابق گزری صدیوں میں ’’خرقہ سعادت‘‘ کو رکھنے کے لیے کئی صندوق بنائے گئے۔ آج کل خرقہ سعادت کو ایک سنہری صندوق میں رکھا جاتا ہے۔ جو اوپر سے کھلتا ہے۔ اس صندوق کے اوپر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیت تحریر ہیں۔ یہ صندوق سلطان عبدالعزیز نے 19 ویں صدی میں بنوایا تھا۔ مذکورہ کیس پر یاقوت اور زمرد جڑے ہیں۔ اس سے قبل سلطان مراد دوم نے 16 ویں صدی میں اسی طرح کا ایک صندوق بنوایا تھا۔ یہ صندوق بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
امام بوصیریؒ کے مشہور قصیدہ بردہ شریف کا تعلق بھی اسی لبادے سے ہے اور اسے قصیدہ بردہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امام بوصیریؒ کی حالت خواب میں نبی اکرم ﷺ نے اپنی یہ چادر مبارک بوصیری کے شانوں پر ڈال دی تھی۔ بوصیریؒ مفلوج تھے۔ لیکن اس چادر کے اوڑھنے کے بعد وہ معجزانہ طور پر شفا یاب ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے یہ قصیدہ کہا۔ عربی کی کسی اور نظم کو اتنی شہرت حاصل نہیں ہو سکی۔ جتنی قصیدہ بردہ کو ہے۔