عارف انجم:
قسط نمبر: 05
موجودہ دور میں تبرکات مقدسہ کے لیے عقیدت میں بظاہر ترک سر فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم عربوں میں بھی ان مقدس تبرکات کی انتہائی تعظیم اور ان سے فیض پانے کی روایت رہی ہے اور اب بھی موجود ہے جسے ’’تبارک بالاثر‘‘ کہا جاتا ہے۔اس روایت کے آغاز پر تبرکات مقدسہ سے فیض پانے کی روایات اور احادیث ملتی ہیں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں اور جس کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ تبرکات سے فیض پانے کا معاملہ ترکی یا برصغیر تک محدود نہیں۔
مختلف روایات کے مطابق حجتہ الوداع سمیت مختلف موقع پر جب بھی بال تراشنے کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک صحابہ کرامؓ کو حاصل ہوئے، تو انہوںؓ نے ان کو بحفاظت رکھا، اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔ اس حوالے سے حضرت خالد بن ولیدؓ کا ایک واقعہ بھی مشہور ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ لیے تھے۔ ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔ ’’مجمع الزوائد‘‘ میں ہے ’’جعفر بن عبداللہ بن الحکم سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی۔ انہوںؓ نے لوگوں سے فرمایا: اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پر نہیں پائی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا۔ اب کی بار لوگوں نے پا لی۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ (اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا اور کروایا، اس پر لوگوں کو تعجب ہوا، تو (ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد بن ولیدؓ نے فرمایا ’رسول اللہؐ نے عمرہ ادا فرمایا، اس کے بعد اپنے سر ِمبارک کا حلق کرایا۔ تو لوگ آپؐ کے سرِ مبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے۔ پس میں نے آپ ؐ کے سرِ مبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیے۔ اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا، اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔‘‘
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے پاس رسول اللہؓ کے موئے مبارک محفوظ تھے۔ کسی کو نظر ِبد لگتی، یا کوئی بیمار ہوتا تو لوگ پانی بھیجتے، موئے مبارک اس میں ڈال دیئے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتے، تو ان کی برکت سے شفا مل جاتی۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے ’’امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے مالک بن اسماعیل نے، ان سے اسرائیل نے روایت بیان کی، وہ عثمان بن عبداللہ بن موہب سے نقل کرتے ہیں، کہ میرے گھروالوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے پاس بھیجا (اور اسرائیل نے تین انگلیاں سکیڑیں) بالوں کے گچھے کی وجہ سے چاندی کے اس پیالہ کی وجہ سے، جس میں نبی پاکؐ کے موئے مبارک تھے۔ (صحیح بخاری، ص:۵۷۸، ج:۲ کتاب اللباس، باب ما یذکر ف الشیب)
آنحضور ﷺ کے دیگر تبرکات سے فیض پانے کے واقعات بھی موجود ہیں۔ جبّہ مبارک سے متعلق صحیح مسلم کی کتاب اللباس والزینہ میں روایت ہے کہ حضرت سیدہ اسما بنت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے نبیؐ کا جبّہ ہے جو سیدہ عائشہؓ کے پاس تھا۔ جب انؓ کا انتقال ہوا تو یہ میرے پاس آگیا۔ اللہ کے نبیؐ اسے پہنتے تھے اور ہم اسے بیماریوں کے لیے دھوتے ہیں، تاکہ وہ ٹھیک ہو جائیں۔ دیگر روایات کے مطابق سرور کونین ﷺ کا ایک جبّہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس محفوظ تھا۔ جب انؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ جبّہ مبارک سیدہ اسماؓ کے سپرد کردیا۔ انہوںؓ نے اسے سر آنکھوں پر رکھا اور جب تک حیات رہیں اسے اپنی جان کے ساتھ رکھا۔ اگر کبھی گھر میں کوئی علیل ہو جاتا تو اس جبّہ مبارک کو دھو کر اس کا پانی مریض کو پلا دیتی تھیں۔ اس کی برکت سے مریض کو شفا ہو جاتی تھی۔ خود حضرت اسماؓ کو کبھی درد سر ہوتا تو اپنے سر کو ہاتھ میں پکڑ کر کہتیں ’’الٰہی اگرچہ میں بہت خطاکار ہوں۔ لیکن تیری رحمت اور فضل بے پایاں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں آرام مل جاتا۔
’’تبارک بالاثر‘‘ کے حوالے سے ایک اور واقعے کا ذکر 15ویں صدی کے مصری تاریخ داں جلال الدین السیوطی اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں کرتے ہیں۔ اس کتاب کے 1992ء میں بیروت سے شائع ہونے والے ایڈیشن کے صفحہ 140 پر درج ہے کہ 17 ویں برس حضرت سیدنا عمرؓ نے مسجد نبوی کی توسیع کی۔ اس برس حجاز میں قحط پڑآ۔ سیدنا عمرؓ نماز استقسا کے لیے آئے۔ جب وہ آئے تو انہوںؓ نے رسول اللہؐ کا بردہ شریف پہن رکھا تھا۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ علما نے جب بھی تبرکات مقدسہ سے فیض یاب ہونے کی بات کی انہوں یہ وضاحت کی ہے کہ تمام ضرویات پوری کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ بات آئے کہ حاجت اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی پوری کر سکتی ہے تو یہ شرک ہوگا۔ لیکن علما یہ بھی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے محبت کی بنا پر اللہ سے مانگنا شرک نہیں ہے۔ 1990ء کے عشرے میں سعودی عرب کے مفتی اعظم رہنے والے امام ابن باز بھی ایک فتوے میں کہتے ہیں کہ جہاں تک ’’التبرک بالاثر النبی من غیرالطلب حاجت‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا تعلق محبت اور اس شوق سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ سے محبت کے اظہار میں مانگنے والے کو عطا کر دیں گے۔ یہ فتویٰ امام ابن باز فاؤنڈیشن کی ویب سائیٹ binbaz.org.sa پر موجود ہے۔ (جاری ہے)
قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصائے مبارک کا بار بار ذکر آتا ہے۔ لہٰذا جب بھی عصا کا ذکر آئے تو ہرمسلمان کا ذہن اسی جانب جائے گا۔ تاہم عصا رکھنا انبیائے کرامؑ کی سنت ہے۔ انبیاؑ کے سردار حضرت محمد ﷺ بھی اپنے پاس عصا رکھتے تھے۔ البتہ یہ کوئی ایک مخصوص عصا نہیں تھا۔ روایات کے مطابق نبی اکرم ﷺ کے پاس مختلف طرح کے عصا رہے، جن کی تعداد مختلف بیان کی جاتی ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے پاس ایک محجن (ایسا عصا جس کا سر ٹیڑھا یعنی نصف گولائی میں بنا ہوتا ہے) تھا۔ اس کی لمبائی 68 سینٹی میٹر تھی۔ آنحضور ﷺ اونٹ کی سواری کے وقت اسے کجاوہ کے ساتھ لٹکا دیتے تھے۔ حج الوداع کی روایات میں ذکر موجود ہے کہ نبی اکرم ﷺ طواف کے دوران حجر اسود کو محجن (عصا) سے اشارہ کرتے اور پھر عصا کو بوسہ دیتے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ مسجد نبوی میں عصا پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے۔ ایسے ایک عصا کا نام ممشوق تھا جو حضرت عثمانؓ تک پہنچا۔ حلمی ایدین کے مطابق یہ ایک پہاڑی درخت کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ جہجاہ ابن قیس (بعض روایات کے مطابق جہجاہ ابن سعید) نے عصا چھین لیا اور اپنے گھٹنے پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ موقع پر موجود لوگ مشتعل ہوگئے۔ حضرت عثمانؓ مسجد سے تشریف لے گئے۔ بعد میں جہجاہ کے ہاتھوں اور گھنٹوں میں خارش شروع ہوگئی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ایک برس بعد جہجاہ کی اسی عبرت حالت میں موت واقع ہوئی۔
حلمی ایدین کے مطابق نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک چھڑی تھی جو وہ جنت البقیع جاتے وقت اپنے ساتھ رکھتے۔ آپؐ کے دیگر دو عصا کے نام راوۃ اور عنزۃ بتائے جاتے ہیں۔ نجران کے ایک پادری نے 10 ہجری میں نبی اکرم ﷺ کو ایک عصا پیش کیا تھا۔ حبشہ کے بادشاہ نے زبیر بن عوامؓ کے ذریعے ایک عصا نبی اکرم ﷺ کو بھیجا تھا۔ ابن سعد سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا بلال حبشیؓ بارش کے دنوں میں عصا لے کر آنحضور ﷺ کے آگے چلتے تھے۔
حلمی ایدین مختلف تاریخی حوالوں سے لکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا معاویہؓ کے دور میں نبی اکرم ﷺ کا ایک عصا سعد القرضی کے پاس تھا۔ حضرت معاویہؑ جب 50 ہجری میں حج کرنے آئے تو وہ یہ عصا اور مسجد نبوی سے منبر اکھاڑ کر دمشق لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم جابر ابن عبداللہ اور ابوہریرہؓ نے انہیں روک دیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں نبی اکرم ﷺ کے عصا اور منبر کی حفاظت کی گئی۔ لیکن بعد ازاں اموی دور میں منبر اور عصا مسجد نبوی سے منتقل کردیئے گئے۔ یہ عصا عباسی خلفا تک پہنچے۔ حلمی ایدین لکھتے ہیں کہ عصا عنزۃ ، عباسی خلیفہ المتوکل کے پاس تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ معتصم باللہ کے دور میں سلجوق سلطان سنجر نے ایک عصا اور نبی اکرم ﷺ کی چادر مبارک عباسی خلیفہ سے لی تھی۔ دیگر روایات کے مطابق نبی مکرم ﷺ سے منسوب ایک عصا بغداد میں منگولوں کی لوٹ مار کے وقت تک موجود تھا، جو اس کے بعد غائب ہوگیا۔
اس وقت ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں آقائے دو جہاں ﷺ سے نسبت رکھنے والا ایک عصا موجود ہے، جس کی لمبائی 148 سینٹی میٹر ہے۔ یہ عصا گول نہیں، بلکہ چھ پہلوؤں والا (hexagon) ہے اور اخروٹ کی لکڑی سے بنا ہے۔ اس کے سرے پر چاندی کا دستہ ہے۔ اس عصا کو ایک سبز کپڑے سے بنی میان میں رکھا جاتا ہے۔ حلمی ایدین لکھتے ہیں کہ اس عصا کی ساخت اور اس کی میان پر موجود تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عصا نبی اکرم ﷺ کا نہیں۔ تاہم یہ آپ ﷺ کے روضہ مبارک پر اگنے والے درخت کی لکڑی سے بنایا گیا تھا اور اسی وجہ سے اس کی حضور اکرم ﷺ سے نسبت بنتی ہے۔