1594ء میں پرچم مبارک کو فوجی مہمات میں ساتھ رکھنے کی روایت پڑی- 17ویں صدی سے توپ کاپی محل میں محفوظ ہے۔فائل فوٹوعفائل فوٹو
1594ء میں پرچم مبارک کو فوجی مہمات میں ساتھ رکھنے کی روایت پڑی- 17ویں صدی سے توپ کاپی محل میں محفوظ ہے۔فائل فوٹوعفائل فوٹو

رسول پاکؐ کے پرچم کا نام عقاب تھا

عارف انجم:
قسط نمبر 6
یہ بات بیشتر مسلمان جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی قریش مکہ کعبۃ اللہ کی خدمت کواعزاز سمجھتے تھے۔ کعبۃ اللہ کی خدمات کے لیے ذمہ داریاں مختلف خاندانوں میں بانٹی گئی تھیں۔ مثال کے طورپرایک خاندان کے پاس کعبہ کی چابیاں تھیں۔ ایک اور خاندان کو آب زمزم کے حوالے سے ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اسی طرح قبیلہ قریش کے پرچم کو اٹھانے کا اعزاز بنو عبدالدار کے حصے میں تھا۔ قریش مکہ کا پرچم سیاہ رنگ کا تھا اوراسے ’’عقاب‘‘ کہا جاتا تھا۔

حلمی ایدین کے مطابق خیال ہے کہ چونکہ رومی فوج کے مرکزی اور اہم ترین دستے کا نام عقیلہ (عقاب) تھا۔ لہذا اسی بنیاد پر قریش کے پرچم کا نام عقاب رکھا گیا۔ جنگوں میں یہ پرچم بنو عبدالدار کے لوگ ہی اٹھاتے۔ عرب قبائل میں جب بھی جنگیں ہوتیں۔ لڑنے والے سپاہی مسلسل اپنے اپنے پرچم پر نظر رکھتے۔ جب تک پرچم میدان جنگ میں دکھائی دیتا رہتا۔ وہ لڑتے رہتے۔ پرچم کے گرنے کو پسپائی کی علامت سمجھا جاتا۔ جس قبیلے کا پرچم گر جاتا۔ اس کے جنگجو شکست قبول کرکے منشتر ہو جاتے۔
روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ ہجرت کے بعد مدینہ میں داخل ہو رہے تھے تو بریدہ بن حصیبؓ نے اپنی پگڑی کھولی۔ اسے ایک ڈنڈے سے لٹکایا اور پرچم بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے آگے آگے چلنے لگے۔ یہ اسلام کا پہلا پرچم تھا۔ ہجرت کے بعد اور جنگ بدر سے پہلے مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو معرکے ہوئے۔ ان میں بھی مسلمان دستوں کو پرچم دے کر بھیجا گیا۔ یہ مختلف پرچم تھے۔ روایات کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی جمعیت کے پاس دو طرح کے پرچم ہوتے۔ ایک سفید رنگ کا جسے کے لیے ’’لوائ‘‘ (بینر) کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ یہ پوری فوج کی نمائندگی کرتا۔ دوسرا ’’الریہ‘‘ جو مخصوص دستوں کی نمائندگی کرتا۔
جب غزوہ بدر کا مرحلہ درپیش آیا تو مسلمانوں کی جمیعت کے پاس چار طرح کے الریہ تھے۔ انصار کے مشہور قبائل بنو خزرج اور بنو اوس کے اپنے اپنے الریہ تھے۔ جو بالترتیب الحباب بن المنذرؓ اور سعد ابن معاذؓ نے اٹھا رکھے تھے۔ مہاجرین کا پرچم مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جب کہ حضرت علیؓ نے نبی اکرم ﷺ کا الریہ عقاب اٹھا رکھا تھا۔
ابن سعد بغدادی کی کتاب الطبقات الکبیر کا حوالہ دیتے ہوئے حلیمی ایدین لکھتے ہیں کہ کچھ وقت کے بعد جب غزوہ احد کا مرحلہ درپیش آیا تو نبی اکرم ﷺ نے پوچھا کہ کفار مکہ کی فوج کا پرچم کس نے اٹھا رکھا ہے۔ بتایا گیا کہ بنو عبدالدار میں سے کسی نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم ان کی نسبت زیادہ روایات کے امین ہیں‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا پرچم مبارک مصعب ابن عمیرؓ کے سپرد کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مصعب ابن عمیرؓ بنوعبدالدار میں سے تھے۔
غزوہ احد میں بنو اوس کے پرچم بردار حضرت اسید بن حضیرؓ تھے۔ بنو خزرج کے پرچم بردار حضرت الحباب بن المنذرؓ اور سعد ابن عبادہؓ تھے۔ جنگ کے دوران جب نبی اکرم ﷺ کا پرچم اٹھانے والے مصعب بن عمیرؓ کا سیدھا ہاتھ شہید ہوگیا تو انہوں نے بائیں ہاتھ میں پرچم اٹھا لیا۔ جب باہنا ہاتھ بھی شہید ہو گیا تو انہوں نے دونوں بازوئوں کو لپیٹ کر پرچم مبارک کو تھام لیا۔ کچھ دیر بعد وہ شہید ہوگئے۔ مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کے بعد پرچم مبارک علی ابن طالبؓ کو دیا گیا۔ جب حضرت علیؓ کو آگے جا کر لڑنا تھا تو پرچم مبارک اٹھانے کی ذمہ داری ایک اور مکی صحابیؓ کو دی گئی۔
جنگ خیبر میں نبی اکرم ﷺ نے پرچم حضرت علیؓ کو دیا اور وہ فتح یاب ہو گئے۔ تاہم مذکورہ پرچم سفید تھا۔ البتہ اسی جنگ میں الریۃ العقاب بھی استعمال ہوا۔
پرچم کی اہمیت کے حوالے سے ایک اور واقعہ جنگ موتہ کا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے 8 ہجری میں اپنے صحابی حضرت حارث بن عمیرؓ کو شام کے شہر بصریٰ کے بادشاہ کے پاس بھیجا۔ بصریٰ کے حاکم نے حضرت حارث بن عمیرؓ کو شہید کر دیا۔ یہ خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو نبی اکرم ﷺ نے بصریٰ کے حاکم سے جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ ﷺ نے تین ہزار مجاہدین کا لشکر تیار کیا۔ جس کی قیادت حضرت زید بن حارثہؓ کو دی گئی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر زید بن حارثہؓ شہید ہو گئے تو پرچم حضرت جعفر بن ابی طالبؓ اٹھائیں گے۔ یہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہؓ قیادت فرمائیں گے۔ اور اگر یہ بھی شہید ہو گئے تو لشکر اپنے قائد کا فیصلہ خود کر لے۔
جنگ موتہ کے دوران حضرت زید بن حارثہؓ کی شہادت کے بعد پرچم حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے اٹھایا۔ آپؓ نے پرچم کو گرنے سے بچانے کے لیے وہی کیا۔ جو غزوہ احد میں مصعب بن عمیرؓ نے کیا تھا۔ حضرت جعفرؓ کے دونوں ہاتھ شہید ہوگئے تو انہوں نے دونوں بازوئوں کو سینے سے لگا کر پرچم کو گرنے سے روکا۔ ان کی شہادت پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، جبرائیل نے مجھے مطلع کیا ہے کہ اللہ نے جعفر کو دو پر عطا کیے ہیں، جس سے وہ جنت میں پرواز کرتے ہیں۔ اسی حدیث کی وجہ سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کو جعفر طیارؓ ( تیز اڑنے والا) کہا جانے لگا۔
حضرت جعفر طیارؓ کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی شہید ہوگئے اور لشکر نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالار بنایا۔ جنگ اتنی شدید تھی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی نو تلواریں ٹوٹیں۔ اسی بنا پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سیف اللہ کا لقب عنایت کیا تھا۔
جنگ موتہ میں استعمال ہونے والا پرچم بھی سفید رنگ کا تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے دوران ہی مسلمانوں نے جنگوں میں مختلف پرچم استعمال کیے۔ تاہم سیاہ رنگ کا الریۃ العقاب خاص طور پر نبی اکرم ﷺ سے نسبت رکھتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک پرچم توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ سیاہ رنگ کے اس پرچم کا نام عقاب ہے اور یہ وہی پرچم ہے جو جنگ بدر اور جنگ احد کے دوران مہاجرین مکہ کی نمائندگی کے لیے استعمال ہوا تھا۔ جدید افواج کی طرح نبی اکرم ﷺ کے دور میں بھی فوجوں کے پاس دو طرح کے پرچم ہوتے تھے۔ ایک فوج کی مجموعی نمائندگی کے لیے اور دوسرا فوج کے مختلف دستوں کی نمائندگی کے لیے۔ مخصوص دستے کی نمائندگی کرنے والے پرچم کو عربی میں ’’الریہ‘‘ کہتے ہیں۔ توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ’’عقاب‘‘ کو الریہ کا درجہ حاصل تھا۔ میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی تحقیق کے مطابق خلفائے راشدین کے دور کے بعد یہ اموی خلفا کے پاس رہا۔ اس کے بعد یہ عباسی خلفا کے پاس آگیا۔ جب منگولوں نے بغداد کو تاراج کیا تو مصر جانے والے ’’عباسی خلیفہ‘‘ عقاب اور دیگر تبرکات کو اپنے ساتھ لے گئے (حلمی ایدین نے عباسی خلیفہ لکھا ہے۔ مستنصر باللہ مصر پہنچنے کے بعد خلیفہ بنے تھے)۔ 16 ویں صدی کے آغاز میں مصر کی مہم میں عثمانیوں کی فتح کے نتیجے میں دیگر تبرکات کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا یہ پرچم مبارک یعنی عقاب بھی سلطان سلیم اول کی تحویل میں آگیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سلطان سلیمان اعظم کے دور میں گورنر مصر نے اس وقت یہ پرچم مبارک ترک سلطان کو بھیجا تھا جب مسلم افواج یونان کے جزیرے روڈز کا محاصرہ کیے بیٹھی تھیں۔
حلمی ایدین کے مطابق پرچم مبارک ’’عقاب‘‘ عثمانیوں کے پاس آنے کے بعد لگ بھگ 75 برس تک دمشق میں رکھا گیا۔ یہاں سے اسے ہر برس مکہ لے جایا جاتا تھا۔ پرچم مبارک کی کڑی حفاظت کی جاتی۔ اسے دمشق کے انتہائی اندرونی قلعوں میں رکھا جاتا۔ ہر سال مکہ روانگی سے چار پانچ دن پہلے پرچم مبارک کی حفاظت پر متعین جنرل اور اس کے ماتحت فوجی دستے جمع ہوتے اور پرچم کو لینے کے لیے قلعے میں جاتے۔ ایک باقاعدہ تقریب منعقد ہوتی۔ جس میں پرچم اس فوجی دستے کے حوالے کیا جاتا۔ مکہ جانے والے قافلے کا سربراہ (گورنر دمشق) پرچم کا ایک سرا پکڑتا اور دوسرا سرا محافظ (یعنی جنرل) تھام لیتا۔ اس کے بعد یہ سب لوگ جلوس کی شکل میں شہر کے مشرقی دروازے کے قریب سرکاری عمارت کی طرف جاتے۔ یہ شاندار جلوس ہر 25 رمضان المبارک کو نکلتا۔ عید کے بعد ایک اور جلوس برآمد ہوتا۔ جس میں پرچم مبارک کو اس مقام تک لے جایا جاتا۔ جہاں نعلین مبارک محفوظ تھے۔ اس کے بعد پرچم مبارک کو حفاظتی صندوق میں رکھ دیا جاتا۔ دوسرے جلوس کے چار پانچ دن بعد گورنر دمشق کی قیادت میں قافلہ حجاز مقدس روانہ ہو جاتا۔
1594ء میں یہ پرچم مبارک استنبول لایا گیا۔ اس سے ایک برس قبل پرچم مبارک دمشق سے آسٹریا میں جنگ لڑتی عثمانی افواج کو بھیجا گیا تھا۔ عثمانی فوجی گیلی پول کے راستے اسے امیر البحر سنان پاشا کے پاس لے گئے۔ اس کا مقصد جنگ میں فتح کے لیے پرچم مبارک کی برکات سے فیض یاب ہونا تھا۔ 1594ء میں پرچم مبارک کچھ وقت کے لیے استنبول میں رکھے جانے کے بعد ہنگری کی مہم میں شریک عثمانی فوج کے پاس بھیجا گیا۔ بعد ازاں اسے واپس دمشق بھیج دیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی فوجی مہمات میں پرچم مبارک رکھنے کی روایت بن گئی۔ 1596ء میں یورپ کی مہم کے دوران سلطان مراد سوم نے نبی اکرم ﷺ کا بردہ شریف اور پرچم مبارک دونوں اپنے ساتھ رکھے۔ پرچم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ اسے ساتھ لے جانے کے لیے آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اہل بیت) میں سے 300 افراد ساتھ بھیجے گئے۔ جو مسلسل سورۃ فاتحہ کا ورد کر رہے تھے۔ انہی کی برکت سے ہنگری میں ایک لاکھ کی عثمانی فوج کو اللہ تعالی نے ڈیڑھ لاکھ کی عیسائی فوج پر فتح دی۔
17 ویں صدی سے یہ پرچم توپ کاپی محل میں محفوظ ہے۔ جب بھی اسے مخصوص صندوق سے نکالا جاتا ہے۔ حفاظ کرام سورۃ فاتحہ یا سورۃ یاسین کی تلاوت کرتے ہیں۔
الریۃ العقاب یا پرچم مبارک کو اس کے سیاہ رنگ کی مناسبت سے عربی میں الریۃ الاسود بھی کہتے ہیں۔ ترک اسے سانجاک شریف (یعنی پرچم شریف) کہتے ہیں۔ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک یہ پرچم جنگوں میں لہرایا جاتا رہا۔ تاہم وقت کے ساتھ یہ پارچوں میں تبدیل ہونے لگا۔ عثمانی سلاطین نے یہ تمام پارچے نہایت احتیاط سے سنبھال لیے۔ پرچم مبارک کے پارچے سبز رنگ کے ریشمی تھیلے میں جمع کیے گئے ہیں۔ یہ تھیلا پرچم مبارک کے لیے بنائے گئے صندوق میں محفوظ رہتا ہے۔
حلمی ایدین کے مطابق بعض روایات میں ہے کہ یہ پرچم مبارک جس اونی کپڑے سے بنایا گیا وہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا تھا۔ پرچم مبارک عقاب چوکور تھا۔
بعض غیر مستند ترک روایات کے مطابق عثمانی سلطنت میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ اگر عثمانی ریاست یا اسلام خطرے میں آیا تو پرچم مبارک سلطان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد سلطان کے لیے لازم ہو جائے گا کہ وہ سپہ سالار کا کردار سنبھالیں اور ہر مسلمان کے لیے جہاد میں شرکت لازمی ہو جائے گی۔