نجم الحسن عارف:
معروف قانون دانوں اور سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ ’’تحریک لبیک کو صرف اسلام اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ اگراس طرح پابندیاں لگائی جانے لگیں تو یہ سلسلہ پھر رک نہیں سکے گا۔ خود پی ٹی آئی زد میں ہوگی۔ پولیس اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ تو بن سکتا ہے۔ پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ معاملہ پارلیمنٹ میں زیربحث لایا جا سکتا ہے کہ تحریک لبیک کے جاں بحق افراد کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے اورایف آئی آر درج نہ کرنے کی اطلاعات معاملے کی سنگینی کا اشارہ ہیں۔ پولیس کو شہریوں کا احتجاج روکنے کیلئے لاٹھی چارج، شیلنگ یا فائرنگ کرنے کا حق حاصل نہیں۔ صرف گرفتاری کر سکتی ہے۔ اس بارے میں لاہور بار کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد پر حکومت کو کان دھرنے چاہئیں۔ حافظ سعد رضوی اور دیگر کو فوری رہا کرنا چاہئے‘‘۔
معروف قانون دان حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن میں باضابطہ طور پر رجسٹرڈ سیاسی جماعت پر حکومت اپنے طور پر پابندی نہیں لگا سکتی۔ اگر حکومت کسی وجہ سے ایسا چاہے تو اسے الیکشن کمیشن کے پاس جانا ہوتا ہے۔ وہ یہ کام براہ راست نہیں کر سکتی۔ رہی بات یہ کہ تحریک لبیک کے کچھ افراد نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا۔ کسی فرد پر حملہ کرنا، اسے زخمی کرنا یا اسے قتل کرنا یکساں ہے۔ وہ سول آدمی ہو یعنی عام آدمی ہو یا پولیس اہلکار۔ سب کی زندگی اور جان یکساں قیمتی ہے۔ انہیں آئین و قانون تحفظ دیتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی پولیس والا کسی فرد کے ہاتھوں قتل یا زخمی ہوا ہے تو اس کیلیے وہی دفعات ہیں جو کسی عام آدمی کے زخمی یا قتل ہونے پر لگائی جاتی ہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پولیس اہلکاروں کو لاٹھی چارج کرتے ہوئے یا آنسو گیس پھینکتے ہوئے یا انتہائی صورت میں فائرنگ کرتے ہوئے روکنے کی کوشش کرنا، یہ قانون کی روح کے مطابق دیکھا جائے تو یہ کار سرکار میں قطعاً مداخلت نہیں۔ لاٹھی چارج کرنا، شیلنگ کرنا اور گولی چلانا اور وہ بھی اپنے ہی لوگوں پر، یہ کار سرکار نہیں۔ لوگوں کو لاٹھی چارج یا آنسو گیس اور فائرنگ سے منتشر کرنے کا حق پولیس کو بھی حاصل نہیں ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہا ’’اگر کسی علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہو اور کچھ لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نکل آئیں تو پولیس گرفتاری تو کر سکتی ہے۔ لاٹھی چارج، شیلنگ یا گولی چلانے کا حق قانون نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی توڑ پھوڑ بھی کر رہا ہے تو اسے بھی گرفتار کرنے کا پولیس کو اختیار ہے۔ اس پر فائرنگ کرنے یا شیلنگ اورلاٹھی چارج کر نے کا حق پھر بھی نہیں‘‘
اس سوال پر کہ اگر پولیس اہلکار قتل ہو جائے مظاہرین کی وجہ سے؟ حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہا ’’ہجوم کے ہاتھوں اگر کسی کا قتل ہو جاتا ہے تواس کی سزا تو عام طور پر سزائے موت نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ ہجوم میں شامل فلاں اور فلاں شخص نے اس طرح قتل کیا، تو اسے قانون کے مطابق اور قتل میں اس کے کردار کے مطابق سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ حکومت تو پولیس اہلکاروں کے اکا دکا قتل کے واقعات پر ایک پوری سیاسی جماعت پر ہی پابندی لگارہی ہے۔ یہ قطعاً جائز اور آئینی نہیں۔ کسی ایک فرد یا چند افراد کا اگر کوئی جرم ہے تو اس کی سزا بھی انہی کیلیے ہے۔ فرد کے جرم کی سزا اجتماع کو کیوں کر دی جا سکتی ہے۔ میری دانست میں تو ایک سیاسی جماعت پر پابندی لگانا درست نہیں ہے۔ البتہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ’’ہائی پاور کمیشن‘‘ قائم کرے۔ اس کمیشن کے ذمہ یہ کام ہو کہ وہ حکومت اور تحریک لبیک دونوں کے الزامات اور نقصانات کا جائزہ بھی لے اور یہ بھی دیکھے کہ تشدد کا آغاز کیسے ہوا۔ کس کی وجہ سے کس کی جان گئی۔ اس کے بعد کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں حکومت اور پولیس کے حکام کے خلاف ایکشن لینا لازم ہو تو وہ لیا جائے۔ اور اگر قصور وار تحریک لبیک کے حامی مظاہرین ہوں تو ان کے خلاف قانون اور شہادت کی بنیاد پر کارروائی کی جائے۔ یہ کمیشن عدالتی کمیشن بھی ہو سکتا ہے۔ حقائق کی تہہ تک پہنچے بغیر کسی بھی فریق کے خلاف انتہائی کارروائی کر گزرنا غیر آئینی اور غیر قانونی کہلائے گا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ڈنڈا اٹھانا یا پکڑنا کیسا ہے، تو میں تو اسے سنت انبیا سمجھتا ہوں۔ عصائے موسیٰ کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ نبی اکرم ﷺ خود عصا رکھتے تھے۔ خطبہ جمعہ کے دوران ہر خطیب کے ہاتھ میں عصا ہوتا ہے۔ یہ سنت ہے۔ سنت کو معاذ اللہ جرم تو نہیں قرار دیا جا سکتا۔ قانون میں بھی ڈنڈے تو اسلحے کے زمرے میں نہیں آتے۔ اگر کسی جماعت کے حامیوں یا کارکنوں کے ہاتھ میں ڈنڈا اس جماعت پر پابندی لگانے کا جواز بنایا جا رہا ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہوگی۔ دوسری جانب صوبائی حکومت کی سفارش پر وفاقی حکومت کا ایک سیاسی جماعت پر پابندی لگانا بھی غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ حکومت میں موجود لوگوں کو آئین اور قانون کی کچھ سمجھ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہوا ہے کہ تحریک لبیک والے حکومت سے معاہدے پر عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ نبھانے کو حکومت کا ارداہ نہیں۔ الٹا تحریک لبیک کے سربراہ کو گرفتارکرلیا اوراس پر پابندی لگا رہی ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے کا جہاں تک معاملہ ہے۔ یہ اگر مطالبہ ناجائز ہوتا تو حکومت بار بار تحریک لبیک سے معاہدہ کیوں کرتی۔ قوموں کو اپنی عزت، مالی مفادات سے عزیز ہوتی ہے۔ مفادات عزت پر غالب آ جائیں تو پھر ذلت ہی ذلت ہاتھ آتی ہے۔ یہاں تو معاملہ نبی پاکؐ کی عزت و ناموس کا ہے۔ اس لئے مفادات کی قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ تو ایمان کا تقاضا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے پسندیدہ رہنما مہاتیر محمد کی مثال بھی ان کے سامنے رہنی چاہیے۔ مہاتیر سرکاری دعوت پر برطانیہ کے دورے پر گئے تو وہاں کے کسی اخبار نے مہاتیرکے کارٹون شائع کر دیے۔ اس پر مہاتیر نے برطانوی دوستوں سے شکایت کی کہ آپ اپنے مہمانوں کی اس طرح توہین کرتے ہیں۔ انہیں جواب دیا گیا کہ آزادی اظہار ہے۔ اس لئے ہم متعلقہ اخبار کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔ مہاتیر نے ملائیشیا واپس پہنچنے سے پہلے ملائیشیا میں موجود تمام برطانوی کمپنیوں اور افراد کے دفاتر بند کر کے انہیں ڈی پورٹ کرنے کا حکم دے دیا۔ برطانیہ کو مہاتیر سے معافی مانگنی پڑی۔ مہاتیر کے واپس ملائیشیا پہنچنے سے پہلے برطانیہ کے خط اور معذرت موصول ہو چکے تھے۔ اس لئے ہماری حکومت بھی غیرت کا مظاہرہ کرے گی تو آسمان نہیں ٹوٹ گرے گا‘‘۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا ’’پہلی بات تو یہ واضح رہنی چاہئے کہ حکومت کسی سیاسی جماعت پر خود پابندی نہیں لگا سکتی۔ اسے ایک ریفرنس متعلقہ سیاسی جماعت کے خلاف دائر کرنا ہوگا۔ اس ریفرنس کے نتیجے میں اگر قانون کی اجازت ملی تو پابندی لگائی جا سکتی ہے وگرنہ نہیں۔ تحریک لبیک سے حکمران جماعت اور حکومت کو اصل پرابلم اس کے مذہبی نظریات سے ہے۔ اگر حکومت نے پابندی لگائی تو پھر یہ سلسلہ کہیں رکے گا نہیں۔ ایک کے بعد دوسری سیاسی جماعت حکومتی انتقام کا نشانہ بنے گی۔ تحریک لبیک کے خلاف حکومت کی سوچ آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حکومت کے اس غلط طرز فکر اور طرز عمل پر متعلقہ قومی ادارے زندگی کا ثبوت نہیں دے رہے۔ پولیس اہلکار اگر کوئی زخمی ہوا ہے تو اس پر دفعہ 339 کے تحت مقدمہ بنایا جا سکتا ہے۔ کسی پولیس والے پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے تو دفعہ 324 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ کار سرکار میں مداخلت پر دفعہ 353 لگتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کا ایک پوری جماعت کو کالعدم قرار دینا تو کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتا۔ میں سمجھتا ہوں حکومت اور لبیک کے مظاہرین دونوں جانب سے تجاوز ہوا ہے۔ لیکن اس تجاوز کی یہ سزا نہیں بنتی جو اس جماعت کو دینے کی تیاری ہے۔
تحریک لبیک کے مظاہرین کے بقول کہ ان کے 40 افراد جاں بحق ہوئے، تو یہ بڑا سنگین معاملہ ہے۔ ان کے مقدمات درج ہونے اور پوسٹ مارٹم نہ ہونے کا معاملہ سنگین تر ہے۔ اب مقدمات درج کرنے کیلیے انتظامیہ کو مجبور کرنے کا طریقہ تو متعلقہ سیشن جج سے رجوع کرنا ہے، جو 22-A کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے اور دفعہ 200 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ سے درخواست کر کے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایف آئی آر درج ہونا تو ہر شہری کا حق ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں شک نہیں ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی سے تو پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ بلکہ دوسری جماعتوں کو بھی پابندیوں کی زد میں لیا جاتا رہے گا۔ پارلیمنٹ اس معاملے کو چاہے تو ٹیک اپ کر سکتی ہے۔ لیکن اس میں چونکہ بیرون ملک کا حوالہ بھی شامل ہے۔ اس لیے شاید بعض جماعتیں خود اس مسئلے کو نہ اٹھائیں۔ تحریک لبیک والوں کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے ساتھ رابطہ کریں۔ انہیں اس جانب متوجہ کریں۔ البتہ کوئی جماعت جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے خود بھی چاہے تو اس معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کے لئے کردار ادا کر سکتی ہے‘‘۔
چوہدری غلام مصطفی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’تحریک لبیک بلاشبہ ایک مسلمہ سیاسی جماعت ہے۔ اس کا منشور ہے اور الیکشن کمیشن اسے ایک سیاسی جماعت تسلیم کرتا ہے۔ عوام بھی اپنے لاکھوں ووٹوں کی صورت میں اس کی تائید کیلیے کھڑے ہیں۔ لیکن اس کا اسلام اور مسجد سے تعلق ہی نہیں، نبیؐ کی ناموس کے تحفظ سے تعلق ہونا حکومت کے نزدیک جرم بن گیا ہے۔ اسی چیز کی اسے سزا دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے آج تک کسی جماعت کو محض احتجاج کرنے پا پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اگر ایک سیاسی جماعت کسی آئینی و قانونی خلاف ورزی کی مرتکب ہو تو الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے سکتا ہے۔ لیکن حکومت تو محض اس کے ساتھ کئے ہوئے اپنے معاہدے پر عمل نہ کرنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ حالانکہ تحریک لبیک نے اس بارے میں حکومت کے مطالبے پر اسے مزید وقت بھی دیا تھا۔ لیکن اسے اب دہشت گرد ثابت کرنے میں حکومت لگ گئی ہے۔ یہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ بالکل یہ انوکھی مثال ہوگی۔ اس سے پہلے سیاسی جماعتوں پر سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا۔ نیب پر حملہ ہوا، ریلوے کی پٹریاں اکھاڑی گئیں۔ پولیس کے ساتھ ٹکرائو ہوتا ہے۔ سول نا فرمانی کی کال دی جاتی ہے۔ لاک ڈائون کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی کے خلاف کبھی اس طرح کی یا اس کمتر کارروائی بھی نہیں کی گئی۔ حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ اگر انہوں نے اس غلط رسم کی بنیاد رکھ دی تو سب سے پہلے پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان زد میں آئیں گے۔ آئین اور قانون کی خلاف ورزی تو حکومت کر رہی ہے کہ انہوں نے سعد رضوی کو گرفتارکیا اورکئی دن گزرنے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کیا۔ حالانکہ 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کیا جانا ضروری ہے۔ صرف سعد رضوی نہیں۔ تحریک لبیک کے دو ہزار سے زائد لوگ گرفتار ہیں۔ انہیں عدالتوں میں نہیں لایا جا رہا۔ عدالت چاہے تو اس صورتحال کا خود بھی نوٹس لے سکتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
تحریک لبیک والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے جو کارکن اور حامی شہید ہوئے ہیں، ان کا مقدمہ بھی درج نہیں کیا جا رہا۔ مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم تک نہیں کرایا جا رہا ۔ آخر پولیس اور حکومت کو ایف آئی آر درج کرنے اور پوسٹ مارٹم کرانے سے خوف کیوں آ رہا ہے؟ لاہور بار نے اس صورتحال میں گزشتہ روز ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ جس میں ناموس رسالت کے تحفظ کیلیے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور تحریک لبیک کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عمل کرے۔ وکلا قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حامی ہیں۔ اس لئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام غیر آئینی اور غیر قانونی کارروائیوں کو روکے۔ نیز سعد رضوی و دیگر اسیران کو فوری رہا کیا جائے۔ اگر یہ جماعت دہشت گرد جماعت ہوتی تو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ ہوتی۔ وہ پاکستان کے آئین اور قانون کو من و عن سے تسلیم کرنے والی جماعت ہے۔ اس کی تمام جدوجہد آئین و قانون کے دائرے میں ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ حکومت خود اس کے ساتھ معاہدے کر چکی ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے بلا جواز پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ پابندی صرف اس پر لگ سکتی ہے جو جماعت دہشت گردانہ نظریات رکھتی ہو یا اس میں ملوث ہو۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہو تو ایسی صورت میں اے ٹی اے کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ تاہم اسی ایکٹ کے11-B ٹو کے تحت 3 دن کے اندر اس جماعت کو پابندی کی وجہ بتانا ہوتی ہے۔ کسی جماعت کا موقف سنے بغیر کوئی فورم بھی اس پر پابندی نہیں لگا سکتا‘‘۔