وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو ٹی ایل پی کا مقصد ہے ،وہی میرا مقصد ہے ۔گزشتہ چند روز سے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال پر قوم سے اہم خطاب میں انہوں نے کہا کہ میرے پاکستانیوں جو پچھلے ہفتے افسوسناک حالات ہوئے ،اس کی وجہ سے فیصلہ کیا آپ کے سامنے آﺅں ۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، اس ملک کے لوگ چاہے گنہگار ہوں یاچاہے وہ اسلام پر صحیح عمل کرتے ہوں یا نہیں لیکن نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی ہو توان کے دل کو تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ تکلیف صرف ہمیں نہیں ہوتی پوری دنیا کو ہوتی ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ ٹی ایل پی جس مقصد کے لیے لوگ نکال رہی ہے ،میں آپ کو یقین دلاتا ہوں وہی میرا مقصد ہے ،ہم بھی چاہتے ہیںشان میں گستاخی نہ ہو،لیکن ہمارا طریقہ کار الگ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ سلمان رشدی نے 1990 میں ایک کتاب لکھی جس میں شان رسالت ﷺ میں گستاخی کی گئی جس کے بعد ہر تھوڑے عرصے بعد دوسرے ملکوں میں گستاخی کے واقعات ہوتے ہیں،ہماری دھرنے اور مظاہروں کی اپروچ سے کیا کوئی فائدہ ہوا؟کیا فرانس کے سفیرکو واپس بھیجنا اور تعلقات ختم کرنا اس مسئلے کا حل ہے؟ کیا اس سے گستاخی کے واقعات ختم ہوجائیں گے؟ میں مغرب کو جانتا ہوں وہ اس کو اظہار رائے کی آزادی کا مسئلہ سمجھتے ہیں تو ایسے اور واقعات ہونگ،۔مگر اس سے پاکستان سے کو فرق پڑے گا،عرصے بعد معشیت اورانڈسڑی اوپر اٹھ رہی ہے،ہماری ایکسپورٹس بڑھ رہی ہیں اور روپیہ مضبوط ہوتا ہے اس کی وجہ سے ہی پیڑول سستا ہواہے۔ فرانس سے تعلق توڑنے کا مطلب یورپی یونین سے تعلق توڑنا ہے، جس سے ہماری ایکسپورٹس اور انڈسڑی اآدھی رہ جائے گی جس سے روپے کی قدر میں کمی ہوگی اور مہنگائی مزید بڑھے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک اسلام آباد کو بند کرکے دھرنا دینے جارہی تھی جس کے وجہ سے گرفتاریاں ہوئیں، اب تک پولیس کی 40 گاڑیاں جلائی گئیں ہیں، پبلک پراپرٹی کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، چار پولیس اہلکار شہید اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔ہسپتالوں میں آکسیجن نہ پہنچنے سے نقصان ہوا۔چار لاکھ ٹویٹس میں سے 70 فیصد ٹویٹس جعلی اکاؤنٹس سے ہوئیں۔انڈین گروپس خبریں چلارہے تھے کہ پاکستان میں سول وار ہوگئی۔اپوزیشن کا کردار بھی مثبت نہیں رہا، سلمان رشدی کے وقت نواز شریف وزیراعظم تھے تب کتنی بار انٹرنیشنل فورم پر بات کی گئی؟ہم سب چاہتے ہیں کہ ہر چند سالوں بعد جو گستاخی کے واقعات ہوتے ہیں انکو روکا جائے۔افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علما اسلام بھی اس میں شامل ہوگئی۔
وزریراعظم کا کہنا تھا کہ میں مغرب کی سوچ کو جانتا ہوں،جون 2019 میں او آئی سی میں اسلامو فوبیا اور شان رسالت میں گستاخی کے حوالے سے بات کی کہ ہمیں دنیا کو اس حوالے سے سمجھانا چاہیے میں نے یو این او میں اس مسئلے کو اٹھایا۔پھر 2020 میں جنرل اسمبلی میں بات کی کہ کیسے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ میری حکومت مسلسل اس حوالے سے بات کررہی ہے فیس بک کے سی ای او کو اس حوالے سے خط لکھا۔ میں نے تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو خط لکھا کہ ہمیں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کرنا چاہے۔مغرب کو ہمارے نبی سے پیار کی سمجھ نہیں وہ اپنے انبیا سے اسطرح پیار نہیں کرتے جیسے ہم کرتے ہیں۔جب تمام اسلامی ممالک مل کر بات کریں گے تو اس کا اثر پڑے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ یہودیوں نے ہولو کاسٹ کے حوالے سے اکھٹے ہوکر بات کی اوراب کوئی ہولو کاسٹ کے حوالے سے بات نہیں کرسکتا،چار یورپی ممالک میں ہولو کاسٹ کے حوالے سے بات کرنے پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ مغرب سمجھتا ہے کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہیں،تو پھر وہ ہمیں بھڑکانے کے لیے شرارت کرتے ہیں،جب سب اسلامی ملک مل کر بائیکاٹ فائدہ کریں گے تو فائدہ ہوگا۔ہم مظاہروں اور دھرنوں سے ساری عمر بھی ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں ذمے داری لیتا ہوں کہ میں اس مہم کو لیڈ کروں گا اور ہم مغرب کو سمجھا دیں گے کہ وہ کیسے ہمیں تکلیف دیتے ہیں جیسے ہی انکو سمجھ آگئی ہم اپنے مقصد کو پہنچ جائیں گے۔ میں علما سے اپیل کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر ہماری مدد کرنی چاہیے جو کچھ ہورہا ہے اس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔یہ وقت اکھٹے ہونے کا ہے ہم اب اوپر آنے والے ہیں اور ہماری معشیت اوپر آنے والی ہے یہ وقت ملک کو نقصان پہنچانے کا نہیں ہے۔ہمیں کورونا کے حوالے سے بھی احتیاط کرنی چاہیے اور اللہ سے بھی دعا کرنی چاہیے۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ معشیت کو نقصان نہ پہنچے۔