فائل فوٹو
فائل فوٹو

مکتوب مبارک میں لکھا حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا

عارف انجم:
قسط نمبر 10
اسلام کے ابتدائی دور میں بالخصوص جزیرہ نما عرب کے پاس دو ہی بڑی عالمی طاقتیں تھیں۔ ایک طرف فارس کی ساسانی سلطنت تھی۔ جس کے حکمران خسرو پرویز کو کسریٰ بھی کہا جاتا تھا۔ ساسانی سلطنت کے بیشتر لوگ زرتشی یعنی مجوسی تھے۔ تاہم اس میں بعض دوسرے مذاہب کے بسنے والے بھی آباد تھے۔ دوسری جانب روم کی بازنطینی سلطنت تھی۔ جس کا حکمران قیصر روم کہلاتا تھا۔ اس طرح ان دونوں سلطنتوں کے لیے مشترکہ طور پر ’’قیصر و کسریٰ‘‘ کی ترکیب استعمال ہونے لگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کی ان دونوں سپر پاورز کی تباہی کی نوید مسلمانوں کو پہلے ہی سنا دی تھی۔
اِذَا ھَلَکَ کِسریٰ فَلاَ کِسریٰ بَعدَہ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیصَرُ فَلاَ قَیصَرَ بَعدَہ وَالَّذِی نَفسُ مْحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتْنفَقنَّ کُنُوزُ ھُمَا فِی سَبیلِ اللّہِ۔
(بخاری جلد 1 ص 511 باب علامات النبوۃ)
ترجمہ: جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا، اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، ضرور ان دونوں کے خزانے اللہ تعالیٰ کی راہ میں (مسلمانوں کے ہاتھ سے) خرچ کیے جائیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں سلطنتوں کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت پہنچائی۔ اسلامی قانون کے مطابق کفار سے جنگ کرنے سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے۔ قیصر روم اور فارس کے کسریٰ دونوں نے ہی بدبختی کا مظاہرہ کیا۔
اس زمانے کے سیاسی نظام کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں میں کئی علاقے ایسے بھی شامل تھے۔ جہاں کے حکمران کافی حد تک اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار تھے۔ یہ ایک طرح کی طفیلی ریاستیں تھیں۔ ان کے حکمران بیک وقت متعلقہ سپر پاور کی جانب سے متعین کردہ گورنر اور اپنے خطے کے بادشاہ تھے۔ مثلاً جزیرہ نما عرب کے ساحلی علاقے کے حکمران المنذر بن ساویٰ تھے۔ جنہیں ساسانی سلطنت نے گورنر بنا رکھا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کی جانب سے ان طفیلی ریاستوں کے حکمرانوں کو الگ سے خطوط تحریر کیے گئے۔ ساسانی سلطنت کی طفیلی ریاستوں کے حکمرانوں نے اسلام قبول کرلیا۔ جن میں بحرین کے گورنر المنذر بن ساویٰ بھی شامل تھے۔ شام اور اردن میں رومی سلطنت کی ماتحت ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی مکتوب روانہ کیے گئے۔
نبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی ایک خط حارث بن ابی شمر غسانی کو بھیجا۔ یہ نامہ مبارکؐ اب بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
حارث بن ابی شمر کا تعلق غسانی قبیلے سے تھا۔ جو تیسری صدی عیسوی میں یمن سے ہجرت کرکے دمشق کے قریب آباد ہوگیا تھا۔ اس قبیلے نے عیسائیت قبول کرلی۔ غسانی بازنطینی سلطنت کے اتحادی بن گئے۔ یہ ساسانی سلطنت کے خلاف رومیوں کے شانہ بشانہ لڑتے تھے۔ غسانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے مختلف حکمران رومی سلطنت کے تحت مختلف علاقوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ حارث دمشق کا حاکم تھا اور اس کا پایہ تخت غوطہ تھا۔ جب کہ اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والا شرحبیل بن عمرو غسانی بلقا کا گورنر تھا۔ جو موجودہ اردن میں ہے۔ شرحبیل بن عمرو جنگ موتہ کا سبب بنا تھا۔
حضرت شجاع بن وَہبؓ نبی کریم ﷺ کا نامہ مبارک لے کر حارث بن ابی شمر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ دمشق پہنچے تو دیکھا کہ قیصر روم کے استقبال کے لئے تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جو بیت المقدس جا رہا تھا۔ حضرت شجاع بن وہبؓ کا بیان ہے کہ میں نے حارث کے دروازے پر دو تین دن قیام کیا۔ میں نے اس کے رومی دربان سے کہا کہ میں حارث کی طرف رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا قاصد ہوں۔ اس نے کہا کہ فلاں روز باریابی ہوگی۔ وہ دربان جس کا نام مُرِّی تھا، مجھ سے رسول اللّٰہ ﷺ اور آپؐ کی دعوت کا حال پوچھتا رہتا تھا۔ میں بیان کرتا تو اس پر رقت طاری ہو جاتی۔ یہاں تک کہ رو پڑتا اور کہتا کہ میں نے انجیل میں پڑھا ہے۔ بعینہ اسی نبی کی صفت اس میں مذکور ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ شام میں ظاہر ہوگا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ وہ زمین عرب میں ظاہر ہوا ہے۔ میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں۔

مجھے اندیشہ ہے کہ حارث مجھے قتل کر دے گا۔ آخر کار حارث ایک روز دربار میں تاج پہن کر تخت پر بیٹھا۔ میں باریاب ہوا تو میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کا نامہ مبارک پیش کیا۔ اس نے پڑھ کر پھینک دیا۔ کہنے لگا۔ ’’مجھ سے میرا ملک کون چھین سکتا ہے؟ وہ خواہ یمن میں ہو‘‘۔ اور حکم دیا کہ فوج تیار ہو جائے اور گھوڑوں کی نعل بندی کی جائے۔ پھر مجھ سے کہا۔ ’’تم جو کچھ دیکھ رہے ہو، بتا دینا‘‘۔ حارث نے میری آمد کا حال قیصر کو لکھا۔ وہ عرض داشت قیصر کو بیت المقدس میں ملی۔ جب قیصر نے حارث کا خط پڑھا تو اسے لکھا کہ اس مدعی نبوت کے پاس مت جائو۔ اس سے دور رہو اور مجھ سے بیت المقدس میں ملو۔ یہ جواب میرے ایام قیام میں آگیا۔ حارث نے مجھے بلا کر دریافت کیا کہ کب جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہاکہ کل۔ یہ سن کر اس نے حکم دیا کہ مجھے سو مثقال سو نا دے دیا جائے۔ حضرت مری نے نفقہ و لباس سے میری مدد کی اور کہا کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعد سلام عرض کر دینا کہ میں آپ کے دین کا پیرو ہوں۔ میں نے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حارث کا حال عرض کیا تو فرمایا کہ اس کا ملک جاتا رہا اور حضرت مُرّی کا حال عرض کیا تو فرمایا کہ وہ سچا ہے۔
حارث ابن ابی شمر تو بدبخت تھا ہی۔ اس کا رشتے دار گورنر بلقا شرحبیل بن عمرو غسانی کئی قدم آگے نکل گیا۔ نبی اکرم ﷺ کی سفارت لے کر شام کے علاقے بُصریٰ جانے والے حضرت حارث ابن عمر کو شرحبیل نے گرفتار کرلیا اور انہیں شہید کر دیا۔ سفیروں اور قاصدوں کا قتل زمانہ جاہلیت میں بھی انتہائی قبیح فعل سمجھا جاتا تھا۔ لہذا نبی اکرم ﷺ نے تین ہزار کا لشکر روانہ کیا۔ اس تین ہزار کے لشکر نے دو لاکھ رومی فوج کا مقابلہ کیا۔
غسانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے آخری حکمران جبلہ بن الایھم نے جنگ یرموک (636 عیسوی) میں رومیوں کا ساتھ دیا تھا۔ مسلمانوں کی فتح کے بعد جبلہ نے قبول اسلام کا اعلان کیا۔ لیکن بعد ازاں مرتد ہوگیا اور 30 ہزار ساتھیوں کے ساتھ فرار ہوگیا۔ وہ رومیوں کے زیر انتظام اناطولیہ میں رہا اور 645 عیسوی میں مر گیا۔ غسانی قبیلے کے افراد بعد ازاں مسلمان ہوگئے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

قیصر روم کی طرف سے حارِث بن ابی شِمر غَسَّانی حدود شام کا گورنر تھا۔ غَوطہ دمشق اس کا پایۂ تخت تھا۔ مسیلمہ کذاب کی طرح حارث بن ابی شمر غسانی بھی عرب عیسائی تھا۔ حضرت شجاع بن وہبؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر اس کے پاس گئے۔ یہ خط مبارک بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ اس خط کے عربی متن کا اردو ترجمہ ذیل ہے۔
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہر بان نہایت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے رسول محمد کی طرف سے حارث بن ابی شمر کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ میں تجھے اس بات کی طرف بلاتا ہوں کہ تو اللّٰہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائے۔ تیری حکومت قائم رہے گی۔
حارث بن ابی شمر خط سننے کے بعد پہلے تو طیش میں آگیا اور کہا کہ مجھ سے میرا ملک کون چھین سکتا ہے؟ تاہم بعد ازاں قیصر روم کے مشورے پر اس نے کوئی نقصان پہنچائے بغیر شجاع بن وہبؓ کو واپس روانہ کر دیا۔ تاہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے عین مطابق کچھ ہی عرصے میں اس کا وطن اس سے چھن گیا۔