عارف انجم:
قسط نمبر 11
نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف حکمرانوں کو مکتوبات کے ذریعے اسلام کی دعوت دینے کا جو سلسلہ شروع کیا۔ وہ چھٹی اور ساتویں ہجری میں زوروں پر رہا۔ سن 8 ہجری میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا اور اسلام پھیلنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ فتح مکہ کے فوراً بعد پورے خطے سے مختلف قبائل اپنے وفود مدینہ منورہ بھیجنا شروع ہوگئے۔ اسی وجہ سے 9 ہجری کو ’’السنہ الوفود‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام کی مقبولیت دیکھ کر کئی جھوٹے نبی سامنے آگئے۔ جن میں سے دو بڑے فتنہ گر تھے۔ ایک مسیلمہ کذاب تھا۔ جو زیادہ معروف ہے۔ اور دوسرا اسود عنسی تھا۔
صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر 3621 ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’مجھے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں) سونے کے دو کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوئی۔ پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے‘‘۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب‘‘۔
اسود عنسی کا فتنہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانے میں ہی ختم کردیا گیا تھا۔ اسود کا تعلق یمن کے قبیلہ عنس سے تھا۔ نبوت کے جھوٹے دعوے کے بعد اس نے اردگرد کے علاقوں پر چڑھائی کر کے قبضہ کرلیا۔ ان میں مسلمانوں کے علاقے بھی شامل تھے۔ بعد میں اس نے نبوت سے آگے بڑھ کر نعوذ باللہ ’’رحمان‘‘ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ آپ ﷺ نے یمن کے مسلمانوں کے نام اسود عنسی کی سرکوبی کا حکم بھیجا۔ وہاں کے مسلمانوں نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ اس فتنے کا سر کچلنے کے لیے باہم مشورہ کیا۔ اسود عنسی خاصی بڑی فوج جمع کر چکا تھا۔ لہٰذا مسلمان اس کے محل میں نقب کے سہارے داخل ہوئے۔ فارس سے تعلق رکھنے والے فیروز الدیلمی نے اس کی گردن مروڑ کر اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ اسے ہلاک کرنے کے بعد فجر کے وقت فیروز الدیلمی نے اسود عنسی کے محل پر چڑھ کر اذان دی اور علاقے کے مسلمانوں کو اس جھوٹے نبی کے خاتمے کا علم ہوگیا۔
ان تمام واقعات کی خبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی مل گئی اور آپؐ نے مدینے میں مسلمانوں کو بتایا۔ لیکن جب قاصد یہ خبر لے کر مدینہ پہنچا تو اس وقت جناب محمد رسول اللہ ﷺ اس دار فانی سے پردہ فرما چکے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد اسود عنسی کے پیروکاروں نے ایک بار پھر سر اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن فیروز الدیلمی کی قیادت میں مقامی مسلمانوں نے انہیں بھی کچل دیا۔
مسیلمہ کذاب کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں ختم کیا گیا۔ یہ اسود عنسی سے زیادہ گستاخ تھا۔ اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کے دعوؤں میں قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں کا کہنا تھا کہ نعوذ باللہ انہیں اسی طرح اپنے اپنے علاقوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علاقے کے لیے نبی بنائے گئے ہیں۔ اسی دعوے کی بنا پر اسود عنسی نے یمن میں مسلمانوں کو لکھا کہ وہ اس زمین کو اسود عنسی اور اس کے پیروکاروں کے لیے چھوڑ دیں اور جو جزیہ لے چکے ہیں، وہ واپس کر دیں۔ اسلام سے پہلے یمن ساسانی سلطنت (فارس) کا صوبہ تھا۔ جس کا حکمران باذان تھا۔ باذان اور ان کے بیٹوں کے اسلام قبول کرنے کے نتیجے میں یہاں اسلام آیا۔ اسود عنسی نے انہی مسلمانوں سے ٹکر لی اور بالآخر ہلاک ہوگیا۔ اس کی ہلاکت کی خبر نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو سنائی۔
اسود عنسی کے برعکس مسیلمہ کذاب نے نبی اکرم ﷺ کو براہ راست خط لکھنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ مسیلمہ کذاب 9 ہجری یعنی السنہ الوفود میں مدینہ گیا تھا۔ اس کا تعلق بنو حنیفہ سے تھا۔ یہ یمامہ (موجودہ سعودی عرب کے وسطی علاقے) سے تعلق رکھنے والا عرب قبیلہ ہے۔ جس نے عیسائیت اختیار کرلی تھی۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ دیگر دو افراد بھی تھے۔ جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا اور باقی لوگ نبی اکرم ﷺ سے ملنے کے لیے روانہ ہونے لگے تو مسیلمہ کو اونٹوں کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ تاہم نبی اکرم ﷺ نے جہاں دیگر دو اراکین کو تحائف دیئے۔ وہیں مسیلمہ کے لیے بھی تحائف بھیجے۔ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنو حنیفہ کے قافلے کے یہ تینوں اراکین مسلمان ہوکر مدینہ سے لوٹے۔ یہ وفد انفرادی حثیت میں مدینہ نہیں گیا تھا۔ بلکہ بنو حنیفہ کے ایما پر گیا تھا اور ان کے قبول اسلام کا مطلب تمام بنو حنیفہ کا قبول اسلام تھا۔
تاہم واپسی کے بعد مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ شروع میں اسے بنو حنیفہ کے کچھ لوگوں کی تائید حاصل تھی۔ 10 ہجری کے آخر میں اس نے آقائے دو جہاںؐ کو خط لکھنے کی ناپاک جسارت کی۔ اس خط کے الفاظ مختلف کتابوں میں درج ہیں۔ لیکن یہاں پر نقل نہیں کیے جا رہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو مسیلمہ کذاب نے عرب کی زمین بانٹنے کی پیشکش کی ناپاک جسارت کی۔ اس خط کے جواب میں نبی اکرم ﷺ نے مسیلمہ کذاب کو خط لکھا۔ جو توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد مسیلمہ کذاب کا فتنہ شدت اختیار کر گیا۔ بنو حنیفہ میں ارتداد پھیل گیا۔ مسیلمہ نے اپنے جھوٹے مذہب میں ایسی چیزوں کی اجازت دی۔ جس سے لوگوں کی نفسانی خواہشات کی تسکین ہو۔ اس نے شراب حلال کر دی۔ نکاح بغیر گواہوں کے جائز کر دیا۔ یعنی زنا مباح کر دیا۔ ختنہ کرنے کو حرام کر دیا۔ نمازوں کی تعداد تین کر دی۔ روزے دن کے بجائے رات میں رکھنے کی رعایت بھی دے ڈالی۔
نبی اکرم ﷺ کے پردہ فرماتے ہی پھیلنے والا ارتداد کا فتنہ مسیلمہ کذاب تک محدود نہیں تھا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایسے تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے مجموعی طور پر 11 لشکر ترتیب دیئے تھے۔ تاہم مسیلمہ کا فتنہ سب سے بڑا اس لحاظ سے تھا کہ اس کے ساتھ بنو حنیفہ کی بڑی تعداد تھی۔
جب حتمی معرکے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13 ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالدؓ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں مئی 633 عیسوی میں حق و باطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ جن میں حضرت ثابت بن قیسؓ،حضرت زید بن خطابؓ وغیرہ شامل ہیں۔
مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا۔ اس باغ کی دیواریں بہت بلند تھیں۔ آخرکار مسلمانوں نے باغ کا دروازہ کھول لیا۔ اس پر مسیلمہ کذاب اپنے خاص دستے کو لے کر میدان میں کود پڑا۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشیؓ نے جو اب مسلمان ہوچکے تھے، اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا۔ جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک انصاری صحابی کھڑے تھے۔ انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا۔ جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جا گرا۔ اس سے مسلمانوں کا جذبہ اور بلند ہوگیا اور انہوں نے پورے زور سے دوسرا حملہ کیا۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کے چالیس ہزار کے لشکر میں سے تقریباً 21 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ اسی بنا پر عقربا کے مقام کو ’’موت کا باغ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس جنگ میں 660 مسلمان شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب کی موت کے بعد اس کا قبیلہ بنی حنیفہ صدق دل سے دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ ) جھوٹے دعویداران نبوت کے خلاف آخری معرکہ تھا۔ اس جنگ کے بعد جزیرہ نما عرب کے تمام مسلمان قبائل خلیفہ راشد کی قیادت میں متحد ہو گئے اور اسلام خطے سے باہر پھیلنے لگا۔
نبوت کے جھوٹے دعوے داروں میں سرفہرست مسیلمہ کذاب کا نام آتا ہے۔ مسیلمہ کذاب نے نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے دوران ہی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا تھا۔ تاہم اس فتنے کی سرکوبی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں کی گئی۔ کئی دیگر جھوٹے دعویداران نبوت کی طرح مسیلمہ کذاب نے بھی نبی اکرم ﷺ کی نبوت سے انکار نہیں کیا۔ بلکہ اس کے ساتھ اپنے جھوٹ کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کذاب نے نبی اکرم ﷺ کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں عرب کی زمین بانٹنے کی ناپاک تجویز دی گئی تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے مسیلمہ کذاب کو جواب میں جو خط لکھا۔ وہ توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ یہ خط 22×15 سینٹی میٹر کے چمڑے کے پارچے پر لکھا گیا ہے۔ اس خط کا اردو ترجمہ ذیل ہے۔
’’شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام۔ بعد حمد سلام ہو اس پر جو راہ راست کی پیروی کرے۔ پھر یہ تحقیق ہے کہ ساری زمین اللہ کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور عاقبت پرہیزگاروں کے حصے میں ہے‘‘۔
مسیلمہ کذاب کے قبیلے بنو حنیفہ کا شمار ان عرب قبائل میں ہوتا تھا۔ جو عیسائیت قبول کر چکے تھے۔ مسیلمہ کا اصل نام کچھ اور تھا۔ تاہم آقائے دو جہاںؐ نے اپنے خط میں اسے ’’مسیلمہ کذاب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور تمام مسلمان ابد تک اسے اسی نام سے پکاریں گے۔