لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت منطورکرلی،لاہور ہائیکورٹ کے تین ججزپرمشتمل بینچ بینچ نے متفقہ فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے اپوزیشن لیڈر کو 50 ،50 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے۔یاد رہے کہ شہبازشریف کی ضمانت پر دو رکنی بینچ میں اختلاف کے باعث چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کیس کا فیصلہ سنانے کیلئے تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی جسٹس باقرعلی نجفی نے کی۔
شہبازشریف کی رہائی آج ممکن نہیں ہو سکے گی کیونکہ عدالتی وقت ختم ہو گیاہے ۔ شہبازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہناتھا کہ شہبازشریف کے مچلکے کل جمع کروائیں گے ، آج عدالتی وقت ختم ہو گیاہے ، شہبازشریف کی جیل سے رہائی کل ہی ہو گی ۔
لاہور ہائیکورٹ میں شہبازشریف کی درخواست ضمانت کے خلاف دلائل دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم شہبازاپنی بیوی کے گھر میں دس سال تک رہتا رہا، وکیل نے کہا کہ شہبازشریف تو اب بھی ماڈل ٹاﺅن میں ہی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔
جسٹس باقر علی نجفی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں تو شہبازشریف تو اب جیل میں رہ رہے ہیں ، جسٹس باقر علی نجفی کے ریمارکس کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا ۔ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جو ٹی ٹیزآئی تھیں ان کے ذرائع کیا تھے ،آخر وہ رقم کہاں سے آئی تھی جو ٹی ٹیز کے ذریعے بھجوائی گئی، کیا نیب نے تفتیش کی کہ یہ رقم کک بیکس کی ہے یا کرپشن کی ، آپ کو چاہیے تھا تفتیش کرتے کہ ان کے غیرقانونی ذرائع کیاتھے ۔
نیب پراسیکیوٹرنے گزشتہ روز اعظم نذیر تارڑ کی آبزرویشن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اعظم نذیرتارڑکی یہ بات توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے،نیب پراسیکیوٹرنے سخت بات کی جوانہیں واپس لینی چاہیے ،نیب توہین عدالت کا نوٹس دلوانا چاہتی ہے ،ہم باہر جا کر موکل کو کیا بتائیں ضمانت ہوئی کہ نہیں ۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ خودپڑھ کرفیصلہ اپنے سائل کوبتائیں۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ ثابت کرسکتاہوں جملہ توہین آمیزہے توآپ کواسے واپس لینا چاہیے، گزشتہ روزشہبازشریف کے وکلانے غیرمناسب آبزرویشن دی،یہ معاملہ عدالت کوگمراہ کرنے کے مترادف ہے، شہبازشریف کے وکیل نے 2 رکنی بنچ کے بارے میں گمراہ کن بات کی شہبازشریف کےوکیل کواپنی بات واپس لینی چاہیے،اعظم نذیرتارڑنے کہاایسانہیں ہواکہ فیصلہ ہونے کے بعدتبدیل ہواہو۔
شہبازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ میں اب بھی اپنے الفاظ پرقائم ہوں۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو اس مسئلے پر مزید بحث کرنے سے روک دیا ، جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ آپ صرف کیس پر بات کریں ۔
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نصرت شہباز کے نام پر 299 ملین کے اثاثے ہیں ، ان کے اکاﺅنٹ میں 26 ٹی ٹیزآئی ، سلمان شہباز کے اثاثے دو ارب 25 کروڑ ہیں، 150 ٹی ٹیزآئیں جن کی مالیت ایک ارب 60 کروڑ بنتی ہے ، الجلیل ہاﺅسنگ سوسائٹی نے پارٹی فنڈ کیلئے بیس لاکھ دیئے ، انہوں نے پیسے ملازمین کی کمپنیوں میں جمع کروائے ، پیسے شہبازشریف کے اکاﺅنٹ میں نہیں خاندان کے افراد کے نام پر آئے ، جب شہبازشریف کو ضرورت ہوتی اس کے مطابق رقم لیتے تھے ۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ٹی ٹیزآناشروع ہوئیں تو اس وقت سلمان شہباز کی عمر کیا تھی جو ٹی ٹیزآئی تھیں ان کے ذرائع کیا تھے ،آخر وہ رقم کہاں سے آئی تھی جو ٹی ٹیز کے ذریعے بھجوائی گئی ،کیا نیب نے تفتیش کی کہ یہ رقم کک بیکس کی ہے یا کرپشن کی ، آپ کو چاہیے تھاتفتیش کرتے کہ ان کے غیرقانونی ذرائع کیاتھے۔