عبد الحفیظ عابد:
محمد بن قاسم جامع مسجد اروڑ کے اسلامی ورثے کے نشانات مٹائے جا رہے ہیں۔ نصف زمین پر جبری قبضہ کر لیا گیا ہے۔ خطیب مسجد ڈھائی سال سے تنخواہ سے محروم ہے۔ وفاقی یا صوبائی حکومت کوئی سنجیدگی سے اس کے آثار کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری لینے کیلیے تیار نہیں۔ بلکہ سیاسی قیادت اور انتہا پسند قوم پرستوں کے دبائو پر سرکاری سطور پر بھی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔
محمد بن قاسم جامع مسجد اروڑ کے آثار اور کھنڈرات دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ یہ باب الاسلام سندھ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ ہے۔ یہ مسجد اسلامی فتوحات اور تاریخ کا نہایت گراں قدر حصہ اور ورثہ ہے۔ ماہ مقدس رمضان المبارک میں حق تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ آزادی کی عظیم نعمت کی علامت پاکستان میں ہر سال موئن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا کے قدیم تہذیبی آثار کو محفوظ رکھنے، قدیم مندروں ، کلیسائوں، گردواروں کی دیکھ بھال تعمیر و مرمت کے لئے حکومتیں اربوں روپے دیتی ہیں۔ اقلیتوں کی حوصلہ افزائی مثبت پہلو ہے، لیکن اسلامی ورثے کے تحفظ کیلیے حکومتیں اور سرکاری اداروں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ ان کی نظریں ایسے آثار، خانقاہوں، مساجد پر رہتی ہیں، جن سے بھاری نذرائے ملیں، جن کے ساتھ کمرشل املاک ہوں، جن کوئی کمائی اور فنڈز ٹھکانے لگانے کا ذریعہ بنایا جا سکے۔
گزشتہ چند سالوں میں تنظیم فکر و نظر کی کوششوں سے محکمہ ثقافت ٹورزم و نوادرات اور انتظامی حکام نے مسجد کی 3 ایکڑ زمین پر تجاوزات کے خاتمے، آثار کی دیکھ بھال ومرمت سے انہیں محفوظ بنانے سمیت کچھ ایشوز پر کاغذی کارروائیاں ضرور کیں۔ لیکن ضلع سکھر کے طاقتور سیاستدانوں کے مفادات، کاروباری سود اور دین بیزار انتہا پسند قوم پرستی کے علمبردار عاقبت نا اندیش گروہ کی مداخلت کی وجہ سے کوئی نتیجہ خیز فیصلہ نہ ہو سکا اوراب بھی علمی نظریاتی تنظیم فکر و نظر ہی بظاہر اس کی نگران ہے، جس میں گروہ بندی پیدا کرکے اس کا اکائونٹ معطل کرا دیا گیا ہے، جس کے باعث درجن بھر ملازمین چھوڑ کر جا چکے ہیں اور مسجد کے خطیب مولانا نبی بخش بھٹی جو ایمانی جذبے سے جیسے تیسے وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں، معمولی تنخواہ سے بھی 28 ماہ سے محروم ہیں۔ دوسری طرف سکھر کے کاروباری نظریاتی اختلاف رکھنے والے منقسم مزاج سیاستدانوں اور افسران نے تجاوزات کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی آڑ لے کر تنظیم فکر و نظر کے اسلامی فکری مرکز کو منہدم کرا دیا ہے۔
شہر کے قلب میں واقع تین ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی یہ عمارت علمی فکری نظریاتی سرگرمیوں کیلیے جہاں استعمال ہوتی تھی، وہیں اس کا کمرشل حصہ بھی بڑی آمدنی کا ذریعہ تھا اور یہی بات سکھر کے کاروباری ذہنیت رکھنے والے اجارہ دار سیاستدانوں کیلیے ناقابل برداشت تھی، جنہوں نے اسے گرانے مٹانے میں اہم کردار ادا کیا اور تقریباً ایک ارب روپے مالیت کے اثاثے سے سکھر کے مثبت فکر حلقوں کو محروم کر دیا۔ اس سنگین جرم کی کہیں داد فریاد نہیں ہو رہی۔ سکھر سندھ کا کراچی اور حیدرآباد کے بعد تیسرا بڑا شہر ہے، جو صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ روہڑی اس کا جڑواں شہر ہے اور ان دونوں کو دریائے سندھ کا پاٹ تقسیم کرتا ہے۔ روہڑی سے تقریباً 11 کلومیٹر جنوب مشرق میں صدیوں کی تاریخ کے حامل شہر اروڑ کے آثار وسیع پہاڑی علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ نارا کینال کا پل پار کریں تو ذرا آگے دائیں طرف کا راستہ اروڑ کی طرف جاتا ہے اور بائیں طرف صالح بھٹ کا قصبہ واقع ہے۔ اروڑ شہر سے کچے پکے مین بازار سے آگے بڑھیں تو وسیع پہاڑی سلسلے سے پہلے ہی تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دینے والے دور کی علامت محمد بن قاسم مسجد کے کھنڈرات نظر آتے ہیں۔
چچ نامے سمیت مشہور مورخین نے صدیوں مختلف حکمرانوں کے ادوار میں دارالحکومت رہنے والے اس شہر کا نام اروڑ، الور، امرور لکھا ہے، لیکن اس کا اصل نام اروڑ ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا حلقہ انتخاب ہے۔ مسجد کے آثار کچھ بلندی پرایک پہاڑی پر واقع ہیں۔ صدر دروازے کی دیوار، محراب سے پہلے عمارت کی دیوارکے کچھ حصے ہی سلامت رہ گئے ہیں۔ اصل مسجد مٹی کا ڈھیر بن گئی ہے۔
تاریخی ریونیو ریکارڈ کے مطابق مسجد کی ملکیت ساڑھے 13 ایکر اراضی تھی، مگر مختصر حصے کے سوا پوری زمین پر قبضہ کر کے رہائشی کاروباری تعمیرات کرلی گئی ہیں۔ ان میں اکثریت سابق وفاقی وزیر قائد حزب اختلاف ممبر قومی اسمبلی خورشید شاہ کی ووٹر ہے اور سید زادے کو مسجد کی زمین پر قبضے سے کوئی پریشانی نہیں۔ سرکاری انتظامیہ کی اس بارے میں بھی دلچسپی کاغذی کارروائیوں تک محدود رہی ہے۔ اس دور میں عمومی طور پرعمارتوں کی تعمیر میں چونا گارا ہی استعمال ہوتا تھا۔ پہاڑی پر جا کر تین سیڑھیاں چڑھ کر دائیں طرف مسجد کے صدر دروازے کے آثار نظر آتے ہیں۔ باقی حصے وقت گزرنے کے ساتھ طوفانی بارشوں موسمی سختیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مٹی کا حصہ بن گئے۔ مزید تین سیڑھیاں چڑھ کر آگے بڑھیں تو قدیم چونے گارے اور اس کی اینٹوں سے مسجد کے برآمدے کی جگہ چھپرا بنایا گیا ہے۔ ان دنوں یہی حصہ نماز کیلیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے آگے بھی قدیم عمارت کے کچھ حصے دیوار کی صورت میں موجود ہیں۔ محراب کا نام و نشان نہیں ملتا۔ خیال ہے کہ مغربی سمت جو سڑک تعمیر کی گئی ہے اس سے پہلے مسجد کا محراب واقع ہوگا۔ اسی چھپرے میں صدر ضیاء الحق کے مسجد کے دورے کے بارے میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔ انگریزی تحریر کا بڑا حصہ تو حالات کی سختی کی تاب نہ لا کر مٹ چکا ہے، لیکن اس پر 23 مارچ 1977ء کی تاریخ پڑھی جا سکتی ہے۔
چھپرے کے بائیں طرف کھدائی کے چند سال کے آثار واضح ہیں۔ حیدرآباد کے ایک مخیر شخص محمد آفتاب نے یہاں مسجد کی نئی تعمیرات کے لیے بنیادوں کی یہ کھدائی بھی کرائی تھی اور لاکھوں روپے کا میٹریل بھی مہیا کیا تھا۔ مشینری بھی لایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مخیر شخص کا کہنا تھا کہ اسے خواب میں حکم دیا گیا ہے کہ جائو محمد قاسم مسجد کو تعمیر کرائو۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی وزیر ثقافت سسی پلیجو نے پولیس بھیج کر زبردستی کام رکوا دیا کہ یہاں کوئی شخص نجی طور پر کوئی کام نہیں کرا سکتا۔ سندھ حکومت خود مسجد کی تعمیر و مرمت اور اسے محفوظ بنانے کا کام کرائے گی۔ اس پر تعمیراتی کام بند ہوگیا۔ بنیادیں کھودی رہ گئیں، مگر عشرہ گزرنے کے بعد سرکاری طور پر کوئی کام اب تک شروع نہیں ہوا، جب یہ کام بند کرایا گیا، شمس جعفرانی سیکریٹری ثقافت تھے۔ نام نہاد سیکولرانتہا پسند سندھی دانشوروں، ادیبوں نے براہ راست جھگڑا کر کے جس طرح سرکاری طورپرمسجد میں کوئی کام نہیں ہونے دیا تھا، اسی طرح غالباً انہوں نے نجی طورپرکرائی جانے والی تعمیرات کو بھی دبائو ڈال کر رکوایا۔ یہ افسوسناک رویہ ہے کہ مندروں، گرجوں پر بھاری سرکاری فنڈز خرچ کرنے پر ان نام نہاد دانشوروں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے وہ انسانی اوراقلیتوں کے حقوق کے نام پر شور مچاتے ہیں۔ لیکن اسلامی ورثے کی مسجد کے آثار کو محفوظ کرنے کے لیے سرکاری فنڈز مختص کرنے پر ان کی رگ الحاد و دہریت پھڑک اٹھتی ہے۔ مسلمان کہلانے والے ان لوگوں کے عقل و فہم پر جس قدر ماتم کیا جائے۔
محمد بن قاسم نے 10 رمضان المبارک 93 ہجری کو راجہ داہر کا خاتمہ کر کے دیبل فتح کیا، جس سے دیگر علاقوں کے حاکموں کے حوصلے پست ہوگئے اور محمد بن قاسم کا لشکر آسانی سے مزید فتوحات کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ محمد بن قاسم جو بھی علاقہ فتح کرتے تھے، وہاں مسجد اولین فرصت میں تعمیر کراتے تھے، اور پورا اہتمام کیا جاتا تھا کہ مستقل وہاں سے دن میں پانچ بار خدا تعالیٰ کی توحید و کبریائی کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ اروڑ فتح کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی جس کے آثار بھی اب مٹتے جا رہے ہیں کیونکہ اس کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں تنظیم فکر و نظرکے تحت سرکاری گرانٹ سے اسلامی مرکز قائم کیا گیا تھا۔ وہ تو حال ہی میں انہدام تک موجود رہا لیکن مسجد کی جگہ کام میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔
آثار مسجد میں چھپرا تعمیر کر کے وہاں نماز کا اہتمام کیا گیا ہے، جبکہ وضو خانہ بھی غیر سرکاری طور پر ہوا ہے۔ تعمیراتی کام شروع کرانے والے آفتاب صاحب کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ بھی اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ورنہ ممکن تھا کہ حالات کی تبدیلی پر وہ پھر تعمیرات شروع کرانے کی کوشش کرتے۔ تنظیم فکر و نظر کے مقرر کردہ خطیب و امام مولانا نبی بخش بھٹی اروڑ میں ہی رہتے ہیں، اتفاق سے ان سے بھی موقع پر ہی ملاقات ہوگئی اور انہوں نے مسجد کے آثار بھی دکھائے اور نظرنہ آنے والے حصوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ تنظیم کے داخلی مسائل کی وجہ سے ان کا اکائونٹ بند ہے، اس لئے انہیں 28 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، جو کہ 10 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ ان کا خاندان 8 افراد پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے ایسے میں ان کی مشکلات کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مولانا بھٹی صاحب نے بتایا کہ ان حالات میں تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے کوئی درجن بھر ملازمین کام چھوڑ کر جا چکے ہیں، لیکن وہ خدا تعالیٰ کے بھروسے مسجد کی خدمت کے لیے کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعہ کے روز خصوصاً مسجد میں اتنی حاضری ہوتی ہے کہ باہر بھی جگہ نہیں رہتی۔ پانچ وقت باقاعدہ وہ جماعت کراتے ہیں، لیکن وہ نمازیوں سے کبھی کوئی چندہ نہیں لیتے، نہ کوئی اپیل کرتے ہیں۔ ہاں کوئی نمازی یا سیاح خود کچھ عطیہ کر دے، تو وہ لے لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا تنظیم فکر نظر کی کوششوں کے باوجود حکومت اور اس کا کوئی ادارہ بھی مسجد کو اپنانے کیلیے تیار نہیں، کیونکہ اس کے ساتھ نہ کوئی جائیداد ہے نہ چندے کا سلسلہ ہے کہ کتنی آمد ہو۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق مسجد کی 13 ایکڑز زمین تھی، اس پر بھی مختلف برادریوں کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ تھوڑی سی جگہ بچی ہے، جس میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ اسی علاقے سے جو منتخب نمائندے ہیں، انہوں نے کبھی مسجد کے حالات جاننے کی ضرور ت محسوس نہیں کی۔
مولانا نبی بخش بھٹی کا کہنا تھا کہ صدر ضیاء الحق نے تنظیم فکرونظرکو کافی فنڈز دیے تھے، لیکن اس کے ذمے داروں نے قدیم تاریخ کو محفوظ کرنے مسجد کی تعمیر نو پر توجہ نہیں دی اور سکھر میں دفاتر اور کمرشل تعمیرات پر بڑی رقوم خرچ کر دیں۔ سندھ حکومت کوئی تعمیراتی کام کرانے کیلیے تیار نہیں۔ اس نے مخیر شخصیت محمد آفتاب کو بھی جبری طورپرکام بند کرانے پر مجبورکردیا تھا۔