عارف انجم:
قسط نمبر: 15
مکہ مکرمہ میں کعبۃ اللہ کے قریب مقام ابراہیم ہے۔ جہاں سنہری جالی کے اندر شیشے میں سے ایک پتھر دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ یہی اصل مقام ابراہیم ہے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کے نقش موجود ہیں۔ مقام ابراہیم کا ذکر قرآنِ حکیم کی سورۃ البقرہ کی آیت 125 میں بھی موجود ہے: ’’اور جب ہم نے کعبہ لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا (اور فرمایا) مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘ (ترجمہ احمد علی)۔ بالخصوص ترک روایات میں مذکورہ آیات کو حضرت محمد ﷺ کے قدم مبارک کے نقوش کی تعظیم کی دلیل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ علما کہتے ہیں کہ اللہ ربْ العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے حبیب ﷺ کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اْن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ ﷺ کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔ ترک حکمرانوں نے ان نشانات کو جمع کرنے میں غیر معمولی دلچپسی لی۔ جہاں اصل نشانات کا حصول ممکن نہیں تھا، انہوں نے نقول تیار کرائیں اور ان کے لیے غیرمعمولی تعظیم اور عقیدت کا مظاہرہ کرتے رہے۔
قدم مبارک کے نقش کی نقول کے لیے ترک سلاطین کی یہ عقیدت شاید کچھ لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہو۔ لیکن یہ معاملہ صرف نقش قدم سعادت کی نقول تک محدود نہیں تھا۔ نبی اکرم ﷺ سے نسبت رکھنے والے تمام مقدس تبرکات کے بارے میں ان کا یہی رحجان رہا۔ البتہ ترک سلاطین نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تبرکات کی نقول کو تمام تر تعظیم کے باوجود نقول ہی کہا جائے۔ جبکہ اصل تبرکات کا مقام اپنی جگہ برقرار رہے۔ تبرکات کی نقول کے لیے ترک سلاطین کی اس تعظیم اور عقیدت پر کچھ مستشرقین نے حیرت کا اظہار بھی کیا ہے۔ امریکی مستشرق، مورخ اور سفارت کار ڈوسن (D’Ohsson) لکھتا ہے کہ عثمانی سلطان محمد اول (دور حکومت 1413-1421) کو نعلین پاک کی ایک نقل پیش کی گئی۔ سلطان یہ جانتے تھے کہ یہ نقل ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس نقل کو بوسہ دیا اور اسے چہرے و آنکھوں سے لگایا۔ سلطان محمد اول نے نعلین پاک کی یہ نقل لانے والے شخص کو معقول ہدیہ بھی دیا۔ ڈوسن لکھتا ہے کہ تبرکات کی نقل کے لیے سلطان کے ان جذبات سے ان کی حضرت محمد ﷺ کے لیے گہری عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
توپ کاپی محل میں ایک کو چھوڑ کر دیگر نقش ہائے قدم سعادت اصل کی نقول ہیں۔ ترک حکمرانوں اور بعد ازاں توپ کاپی میوزیم کے حکام نے اس بات کو اچھی طرح واضح کر رکھا ہے۔ اس احتیاط کا اعتراف مستشرقین بھی کرتے ہیں۔
ترکی میں توپ کاپی محل کے باہر بھی قدم مبارک کے نقش موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر موجود قدم مبارک کا نقش ہے۔ یہ نقش نقل نہیں، بلکہ اصل ہے اور اس کی سند نقش کے ساتھ ہی موجود ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح نے تعمیر کرایا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ 972 عیسوی میں قسطنطنیہ کی دیواروں کے باہر وصال فرما گئے تھے اور انہیں وہیں سپردِ خاک کردیا گیا تھا۔ جب 1453 میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو انہوں نے آپؓ کی قبر تلاش کی اورمزار تعمیر کرایا۔ ترک سلاطین کے لیے اس مزار مبارک کی غیر معمولی اہمیت رہی ہے اور وہ اسے توپ کاپی محل سے بھی اہم سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 19ویں صدی کے آغاز میں سلطان محمود دوم نے توپ کاپی محل میں موجود نقش قدم سعادت اور بعض دیگر مقدس تبرکات لیے اور انہیں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر لے آئے۔ اس وقت سے یہ تبرکات یہیں موجود ہیں۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک پہلے ہی ترک سلاطین کے لیے محترم تھا۔ تبرکات مقدس یہاں منتقل کیے جانے کے بعد اس کی تقدیس میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ عثمانی سلاطین کی تاج پوشی یہاں آئے بغیر مکمل تصور نہیں کی جاتی تھی۔ ارطغرل کے بیٹے عثمان غازی کے بعد سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ نئے سلطان کو عثمانی غازی کی تلوار باندھی جاتی ہے۔ پہلے یہ رسم محل میں ادا کی جاتی تھی لیکن بعد میں طویل عرصہ تک تلوار باندھنے کی رسم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر ادا کی جاتی رہی۔ اس کا سبب نقش قدم سعادت اور دیگر تبرکات کی وہاں موجودگی کو قرار دیا جاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے علاوہ سلطان مصطفیٰ سوم اور سلطان عبدالحمید اول کے مقبروں پر بھی نبی اکرم ﷺ کے قدم مبارک کے نقش موجود ہیں۔ عبدالحمید اول کے مقبرے میں موجود نقش قدم سعادت کو دمشق سے قسطنطنیہ لایا گیا تھا۔ عالم دین شیخ محمد زیاد نقش مبارک کو اپنے سر پر اٹھا کر یہاں لائے تھے۔ یہ نقش قدم سعادت کئی نسلوں سے شیخ محمد زیاد کے خاندان کے پاس تھا۔ نقش مبارک کی منتقلی اتنی اہم تھی کہ خلیفہ نے خود باہر نکل کر نقش قدم سعادت اور شیخ زیاد کا استقبال کیا تھا۔ بعد میں خلفیہ عبدالحمید کے وزیر اعظم خلیل پاشا نے شیخ زیادہ کے لیے خانقاہ تعمیر کرائی۔ (جاری ہے)
توپ کاپی محل میں موجود قدمِ مبارک کے نقوش میں سے جہاں، طرابلس سے لایا گیا نقش اصلی ہے، (جس کی تصویر اور تفصیل گذشتہ روز پیش کی گئی) وہیں پانچ دیگر نقوش بھی ہیں جو مختلف طرح کی نقول ہیں۔ ان میں سے دو زیادہ اہم ہیں۔ ایک نقل پتھر میں بنی ہے اور اصل کے کافی قریب معلوم ہوتی ہے۔ دوسری میں لکڑی کو نقشِ قدم مبارک کی شکل دی گئی ہے۔ دیگر نقول محض تصاویر ہیں۔ ترک روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک سلاطین، نقشِ قدم مبارک کی نقول اور تصاویر کی بھی انتہائی تعظیم کرتے تھے۔ انہیں آنکھوں سے لگاتے۔ بوسہ دیتے اور ان کی زیارت کو اہم سمجھتے۔
قدم ِمبارک کے نقش کی پتھر سے بنائی گئی جو نقل توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ استنبول کے ایک پرانے علاقے ادرنہ قاپی میں ایک معزز خاتون کے گھر سے ملی تھی۔ ادرنہ ترکی کا ایک پرانا شہر ہے اور ادرنہ قاپی کے معنے ہیں ’’ادرنہ کا دروازہ‘‘۔ یہ علاقہ قدیم قسطنطنیہ کے اندرون شہر (city walled) میں شمار ہوتا ہے۔ مذکورہ نقل کے بارے میں توپ کاپی میوزیم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیت المقدس میں قب الصخرہ کے اندر چٹان پر موجود نبی اکرم ﷺ کے قدم مبارک کے نقش کی ہو بہو کاپی ہے۔ بیت المقدس میں نبی کریم ﷺ کا نقش پا اس وقت بنا تھا جب آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
پہلے ذکر آچکا ہے کہ سلطان احمد اول نے جب مملوک سلطان سیف الدین قایتبائی کے مزار پر موجود نقشِ قدم سعادت کو استنبول لا کر اس کی نقول بنوائیں تو لکڑی پر بنی ایک نقل اپنے شیخ عزیز محمود خدائی کو اسکوادار بھجوائی۔ عزیز محمود خدائی کے نام پر اسکوادار شہر میں ایک خانقاہ تعمیر ہوئی۔ جب کہ شیخ مسجد اسکوادار بھی انہی سے موسوم ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کے مطابق صدیوں بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران شیخ عزیز محمود خدائی کی خانقاہ کے شیخ اور شیخ مسجد کے امام طالب آفندی سے ایک نقشِ قدم سعادت، خانہ کعبہ کی چابی اور ایک نعلین مبارک وصول کرکے توپ کاپی محل منتقل کی گئیں۔ تاکہ ان کی بہتر حفاظت کی جا سکے۔ ماہرین کے مطابق نقش قدم سعادت کی یہ نقل اخروٹ کی لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ بعض لوگ غلطی سے اسے لکڑی کا جوتا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ لیکن اسلامی تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسے جوتے پہنے ہوں۔ حلمی ایدین کے مطابق نقشِ قدم سعادت کی یہ نقل سلطان محمد اربع نے طالب آفندی کے والد کو عنایت فرمائی تھی۔ یہ اس نقل سے مختلف ہے جو سلطان احمد اول نے اپنے شیخ عزیز محمود خدائی کو بھیجی تھی۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود دیگر نقشِ قدم سعادت میں سے ایک چاندی کے تختے پر بنایا گیا ہے، جس کے اندر اشعار تحریر ہیں۔ ایک لکڑی کے بڑے تختے میں کنندہ کاری سے ثبت کیا گیا اور اس کے گرد اشعار لکھے ہیں۔