توپ کاپی میوزیم میں موجود حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب تین نعلین مبارک میں سے ایک- دو قبال والی اس نعلین مبارک کے اصل ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب تین نعلین مبارک میں سے ایک- دو قبال والی اس نعلین مبارک کے اصل ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔

نعلین مبارک کو 1872ء میں دمشق سے ترکی منتقل کیا گیا

عارف انجم:
قسط نمبر 16
سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ ﷺ کے ان آثارِ متبرکہ میں نعلین مبارک کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ کروڑوں مسلمان نعلین مبارک کا نقش اپنے پاس رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ساتھ بھی ہے۔ ترکی کے مسلمان اس معاملے میں کافی آگے ہیں۔ ترکی میں نعلین مبارک یا نقشہ نعلین مبارک سے استبراک اور توسل کی طویل روایت موجود ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی آخری دو صدیوں میں آثارِ متبرکہ کے لیے ترکوں کی تڑپ میں شدت آگئی (اس کے دنیاوی سبب کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی)۔ اور وہ ہر جگہ سے تبرکات جمع کر کے قسطنطنیہ (استنبول) لانے لگے۔ اگرچہ پہلی جنگ عظیم کے دوران بہت سے تبرکات دوسرے علاقوں سے حفاظت کے پیش نظر استنبول منتقل کیے گئے۔ لیکن آثار مبارکہ کی منتقلی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان سے فیض حاصل کیا جا سکے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کے نقش کی دمشق سے قسطنطنیہ منتقلی کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ 19 ویں صدی میں ایک نعلین مبارک بھی دمشق سے قسطنطنیہ لائی گئی۔ ان نعلین مبارک کی ایک خاص اہمیت تھی۔
دمشق طویل عرصے سے اسلامی تہذیب کا گہوارا تھا۔ یہاں پر کئی آثار مبارکہ موجود تھے۔ لیکن نعلین شریف کے حوالے سے ایک شہر کو ایک خاص نسبت تھی۔ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعلین مبارک کا ایک جوڑا صحابی رسول حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا۔ حضرت انسؓ اپنی زندگی کے آخری ایام میں شام چلے گئے تھے اور دمشق میں قیام پذیر رہے۔ بعض روایات کے مطابق ان کا انتقال بھی اسی شہر میں ہوا تھا۔ جبکہ بعض روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بصرہ میں انتقال فرمایا۔
صحیح بخاری کتاب اللباس میں ہے: ’’حدثنی عبد اللہ بن محمد، حدثنا محمد بن عبداللہ الاسدی، حدثنا عیسیٰ بن طھمان، قال: اخرج الینا انس نعلین جرداوین لھما قبالان۔ فحدثنی ثابت البنانی بعد عن انس، انھما نعلا النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘۔ (ترجمہ): مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ اسدی نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن طہمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو پرانے جوتے نکال کر دکھائے۔ جن میں دو تسمے لگے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پھر ثابت بنانی نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ وہ دونوں جوتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تھے۔ (حدیث نمبر 3107)۔
اس حدیث اور توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نعلین مبارک کسی حد تک موجودہ دور کی ہوائی چپل سے ملتی جلتی تھی۔ تاہم جہاں ہوائی چپل میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تلے میں جاتا ہے۔ وہاں نعلین مبارک میں چمڑے کے دو تسمے تلوے میں جاتے تھے۔ ان تسموں کو قبال (تثنیہ کے لیے قبالان) کہتے ہیں۔ حلمی ایدین کے مطابق تسموں سے ٹخنے کی جانب جانے والی چمڑے کی پٹیوں کو شریط کہا جاتا ہے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ عام رحجان کے برعکس نبی اکرم ﷺ کی نعلین مبارک بغیر بال کے چمڑے سے بنائی گئی تھیں۔ صحیح مسلم کی حدیث نمبر حدیث نمبر 2818 میں ہے کہ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ، میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہ ایسی نعل پہنتے تھے، جس میں بال نہ ہوں اور اسی میں وضو کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زرہ، عصا، پیالہ، انگوٹھی اور ان تمام چیزوں کا بیان جنہیں آپ ﷺ کے بعد آپ کے خلفاؓء نے استعمال کیا، لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں۔ اسی طرح آپ کے موئے مبارک، نعلین اور برتنوں کا حال ہے۔ جن سے آپ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہؓ اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔ (کتاب فرض الخمس باب نمبر 5)
علما کا کہنا ہے کہ نعلین مبارک سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھیں، اور انہیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصے میں دمشق چلے گئے تھے۔ علما کے خیال میں حضرت انسؓ کے پاس جو نعلین مبارک تھیں۔ وہ دمشق میں نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہوگئیں۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے اسلامک اسٹیڈیز کے پروفیسر برینن وہیلر کے مطابق نعلین شریف کے مختلف جوڑے مختلف ذرائع سے دنیا میں پھیلے۔ نعلین مبارک کا ایک جوڑا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی ام کلثومؓ کے پاس تھا۔ مصری مورخ احمد بن عبدالوہاب النویری کا حوالہ دیتے ہوئے وہیلر لکھتے ہیں کہ نعلین مبارک کا ایک جوڑا احمد بن عثمان نامی ایک مصری شخص کے پاس تھا۔ احمد بن عثمان صحابی رسول سلیمان ابو الحدیدؓ کی نسل میں سے تھے۔ روایت کے مطابق احمد بن عثمان چاہتے تھے کہ ان کے انتقال کے بعد نعلین مبارک ان کی آنکھوں پر رکھ کر انہیں دفنایا جائے۔ نعلین مبارک کا ایک اور جوڑا 11 ویں صدی میں فلسطین کے شہر الخلیل کی ایک مسجد میں محفوظ کیے جانے کی روایات بھی موجود ہیں۔ نعلین مبارک کے ان تمام جوڑوں کا بعد میں کیا ہوا۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تاہم ایک نعلین مبارک دمشق سے قسطنطیہ لائی گئی تھیں۔ مختلف اسلامی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے وہیلر لکھتے ہیں کہ ایک نعلین مبارک عباسیہ دور کے مشہور محقق اور مورخ ابن ابی الحدید کے پاس تھیں۔ وہ اسے اپنے ساتھ رکھتے اور مختلف مقامات پر لوگوں کو اس کی زیارت کا موقع دیتے۔ 14 ویں صدی کے مصر کے حکام الملک الاشرف نے بھی ایک موقع پر ان نعلین مبارک کی زیارت کی۔ ان کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ وہ یہ نعلین مبارک حاصل کرلیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ نعلین مبارک کو گلے میں پہن سکیں اور مرتے وقت اس کے ساتھ دفن ہوں۔ ابن ابی الحدید کے انتقال کے بعد الملک الاشرف ان نعلین مبارک کو دمشق لے گئے۔ یہاں پر کئی شیخ الحدیث موجود تھے۔ شامی مورخ عثمان بن احمد ابن الحورانی کا حوالہ دیتے ہوئے وہیلر لکھتے ہیں کہ مذکورہ نعلین مبارک کو دمشق کے دارالحدیث الاشرفیہ کی ایک دیوار میں محفوظ کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسی نعلین مبارک کو قسطنطنیہ منتقل کیا گیا۔ (جاری ہے)

توپ کاپی میوزیم میں موجود حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب تین نعلین مبارک میں سے ایک- دو قبال والی اس نعلین مبارک کے اصل ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب تین نعلین مبارک میں سے ایک- دو قبال والی اس نعلین مبارک کے اصل ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کے نقش کی طرح نعلین مبارک بھی کئی ملکوں میں موجود ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تمام نعلین مبارک یا ان میں سے بیشتر اصل کی نقل ہیں۔ علما اس بات پر متفق ہیں کہ نعلین مبارک کی نقل حتیٰ کہ تصویر سے بھی فیض و برکت حاصل ہوتی ہے۔ اور نقول یا تصاویر کی بھی بھرپور تعظیم کی جانی چاہیے۔
توپ کاپی میوزیم میں تین نعلین مبارک موجود ہیں۔ جبکہ ایک بند جوتا مبارک بھی ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی تحقیق کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعلین مبارک چمڑے کی تین تہوں کو آپس میں سی کر بنائی جاتی تھیں۔ اس چمڑے سے جانور کے بال صاف کیے گئے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں عرب عام طور پر جانور کی کھال سے بال ہٹائے بغیر جوتے بنواتے تھے۔ نعلین مبارک کا اوپری حصہ شریط (چمڑی کی پٹیوں) پر مشتمل ہوتا جو ٹخنے تک جاتیں۔ جبکہ سامنے کی جانب دو تسمے انگوٹھے اور پاؤں کی بڑی انگلی کے درمیان سے گزرتے۔ ان تسموں کو عربی میں قبال (دو کے لیے قبالان) کہا جاتا ہے۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود تین نعلین مبارک میں سے ایک میں پاؤں کے انگوٹھے اور انگلی سے گزرنے والے دو تسمے (قبال) ہیں۔ تینوں نعلین مبارک کے ساتھ توپ کاپی میوزیم کے حکام نے ان کے ساتھ صرف ’’نعلین سعادت‘‘ کے الفاظ تحریر کیے ہیں۔ مزید وضاحت نہیں کی گئی۔ البتہ دیگر تاریخی حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نعلین مبارک میں سے ایک 1872ء میں دمشق سے قسطنطنیہ میں توپ کاپی محل پر منتقل کی گئی تھی۔ خیال ہے کہ یہ وہی نعلین مبارک ہے۔ جس کے دو قبال ہیں۔ اسی بنا پر اس کے اصل ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔ اور دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسا سمجھتے بھی ہیں۔ لیکن ترک حکام ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔
دو قبال کی حامل نعلین مبارک کو توپ کاپی میوزیم میں دیگر نعلین مبارک کے ساتھ ہی رکھا گیا ہے۔ میوزیم حکام نے اسے دوسری نعلین مبارک پر کوئی فوقیت نہیں دی۔ لیکن جب بھی استنبول میں محفوظ نعلین مبارک کا ذکر ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے ذہن میں اسی نعلین مبارک کی شبیہ ابھرتی ہے۔ دیگر تین نعلین مبارک کی نسبت دو قبال کی حامل اس نعلین مبارک کی تصاویر زیادہ بنائی گئی ہیں اوران کی تشہیر بھی زیادہ ہوئی ہے۔