عارف انجم:
قسط نمبر 19
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس حوالے سے کئی احادیث موجود ہیں۔ سیرت کی کتابوں میں ایک جس بات کا نسبتاً کم ذکر آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود بھی ایک ماہر تیر انداز تھے۔ آپ ﷺ کے پاس ایک سے زائد کمانیں تھیں۔ ان کی تعداد 6 بتائی جاتی ہے۔ ان کمانوں کو باقاعدہ نام دیئے گئے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک کمان مبارک کا نام البیضاء تھا۔ یہ کمان پہلے مدینہ کے یہودی قبیلے بنو قینقاع کے پاس تھی۔ ان سے حضور اکرم ﷺ کے پاس آئی۔ بنو قینقاع کو غزوہ بدر کے بعد مسلمانوں نے مدینہ منورہ سے بے دخل کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی دیگر کمانوں کے نام الزورا، الروحا، الصفرا، الکتوم اور السداد تھے۔ الصفرا یعنی پیلے رنگ کی کمان نبا کے درخت سے بنائی گئی تھی۔ اس درخت کی شاخیں کمان بنانے کے لیے بہتر سمجھی جاتی ہیں۔ الکتوم کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس کمان کے چلنے کی آواز پیدا نہیں ہوتی تھی۔ السداد کا مطلب ہے سیدھا۔ اس کمان سے پھینکے گئے تیر سیدھے ہدف کی جانب جاتے تھے۔ ان تلواروں کا ذکر دیگر کتب کے علاوہ زاد المعاد اور المختصر الکبیر میں ہوا ہے۔
روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کمان الکتوم غزوہ احد میں ٹوٹ گئی۔ جس کے بعد یہ قتادہ بن نعمانؓ نے لے لی۔ غزوہ احد میں تیر اندازی کا کافی اہم کردار تھا۔ حضرت ابو طلحہ زید بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر تیر چلاتے رہے۔ آپؓ کے ہاتھ سے یکے بعد دیگرے تین کمانیں ٹوٹیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک ترکش بھی تھا۔ جس کا نام الکافور تھا۔ یہ ایسے چمڑے سے بنا تھا۔ جس پر سے جانور کے بال صاف کیے گئے تھے۔ ایک اور ترکش کا نام ’’جمع‘‘ بتایا جاتا ہے۔
مولانا عبدالرئوف دانا پوری ’’اصح السیر‘‘ میں آپ ﷺ کے زیرِ استعمال آلات حرب کے بیان میں تحریر کرتے ہیں: ’’آ پ ﷺ کے پاس نو تلواریں تھیں۔ سات زِرہیں تھیں۔ چھ کمانیں تھیں۔ دو سپر تھیں۔ دو نیزے تھے۔ تین چوب دست تھے۔ النبعہ، البیضاء اور الغزہ جس کو آپ ﷺ اکثر ساتھ رکھتے تھے۔ خود دو عدد تھے۔ الموشح اور ذو المسوغ، تین حجاب تھے۔ جن کو وقت حرب پہنتے تھے۔ سیاہ رنگ کا عَلم، چھوٹا خیمہ، بڑا ترکش تھا‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ تیر اندازی کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ سنن ابن ماجہ کے مطابق عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو‘‘۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں‘‘۔ یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے۔ مگرعقبہ ہی سے صحیح مسلم (امارۃ: 52) میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’جس نے تیر اندازی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ یا فرمایا: ’’اس نے نافرمانی کی‘‘۔
تیر اندازی کے حوالے سے سیرت پاکؐ میں ایک اور واقعہ ہے۔ رسول اقدس ﷺ صحابہ کرامؓ کو اکثر جنگی مشقیں کرایا کرتے تھے۔ ان کو بہادر اور ماہر جنگ بنانے کے لئے ان کی ہر طرح حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
ایک دن آپ ﷺ بہت سے قبیلوں میں تیر اندازی کا مقابلہ کرارہے تھے۔ اس میں کچھ لوگ قبیلہ بنو اسماعیل کے بھی تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے مقابلے پر دوسرے قبیلے کے لوگوں کو کھڑا کیا۔ آپ ﷺ خود بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے اور فرمایا: ’’اے بنو اسماعیل! تیر پھینکو۔ تمہارا باپ بہت اچھا تیر انداز تھا۔ میں بھی تمہارے مد مقابل کے ساتھ مل کر تمہارے مقابلے پر ہوں‘‘۔
قبیلہ بنو اسماعیل کے لوگوں نے یہ سن کر تیر اندازی سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔
آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’تم لوگ تیر پھینکنے سے رک کیوں گئے؟‘‘۔
عرض کی ’’اے رسول خدا! جس قبیلے کے ساتھ آپؐ ہیں۔ ہم اس کی طرف تیر کیسے پھینک سکتے ہیں؟ بھلا ہماری یہ مجال کیسے ہو سکتی ہے کہ اپنے پیارے نبی ﷺ کے مقابلے پر تیر چلائیں‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بنو اسماعیل! تیر پھینکو۔ میں سب کے ساتھ ہوں‘‘۔ تب ان لوگوں نے تیر چلانا شروع کیا۔
(بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب تحریص علی الرمی)
صحیح مسلم (حدیث نمبر 4946) میں ہے: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’تیار کرو کافروں کے لیے قوت کو۔ قوت سے مراد تیراندازی ہے۔ قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔ قوت سے مراد تیر اندازی ہے‘‘۔
صحیح مسلم میں ہی (حدیث نمبر4947) ہے کہ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے ’’چند روز میں کئی ملک تمہارے ہاتھ پر فتح ہوں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کافی ہے۔ پھر کوئی تم میں سے اپنا تیر کا کھیل نہ چھوڑے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو صحابہ کرامؓ، تابعین اور بعد میں آنے والے مسلمانوں نے سر آنکھوں پر رکھا۔ بالخصوص یہ کام ترکوں نے کیا۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ترکوں یعنی سلطنت عثمانیہ کی یورپ میں فتوحات کا بڑا سبب تیر اندازی میں ان کی مہارت تھی۔ شکاگو یونیورسٹی میں بازنطینی تاریخ کے پروفیسر والٹر کے گی اپنے ایک مقالے The Contribution of Archery to the Turkish Conquest of Anatolia میں لکھتے ہیں کہ تیر اور کمان کو استعمال کر کے بازنطینی سلطنت چھیننے کا آغاز ترکوں نے سلجوقوں کے زمانے میں ہی کر دیا تھا۔
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک کمان مبارک توپ کاپی میوزیم کی زینت ہے۔ یہ کمان مبارک صدیوں پہلے عثمانی خلفا کے پاس آئی۔ 17 ویں صدی عیسوی میں سلطان احمد اول نے اس کمان مبارک کے لیے ایک خوبصورت خول تیار کرایا۔ یہ خول چاندی سے بنا ہے۔ جس پر سونے کا پانی بھی چڑھایا گیا ہے اور کمان مبارک کی صفات بیان کی گئی ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کمان مبارک بانس سے بنی ہے۔ اس کی لمبائی 118 سینٹی میٹر (3 فٹ 10 انچ) ہے۔ کمان مبارک کا وزن 286 گرام ہے۔ جب کہ اس کے خوبصورت خول کا وزن 1290 گرام ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور کی ایک اور مشہور کمان جو آج بھی محفوظ ہے۔ وہ مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ یہ کمان مدینہ کے الحجاز ریلوے میوزیم میں موجود ہے۔ روایت ہے کہ یہ وہی کمان مبارک ہے۔ جس سے حضرت سعدبن ابی وقاص جنگ احد میں تیر چلا رہے تھے تو حضور ﷺ نے آپؓ کے کندھے پر اپنا رخ انور رکھ کر حوصلہ افزائی کی تھی۔ یہ وہ الفاظ ہیں۔ جنہیں پڑھ یا سن کر ہر مسلمان کا جسم کانپ جاتا ہے۔ حجاز ریلوے میوزیم مدینہ میں حضرت سعدؓ کی کمان کے ساتھ موجود کتبے پر بھی یہ الفاظ درج ہیں: ’’ارم سعد… فداک ابی و امی‘‘ (تیر چلاؤ سعد…۔ تم پر میرے ماں باپ قربان‘‘۔