فائل فوٹو
فائل فوٹو

روضہ رسول سے منسوب مشکیزہ بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ

عارف انجم:
قسط نمبر: 22
روضہ رسولؐ پر سب سے پہلا گنبد مبارک 678 ہجری (1279 عیسوی) میں بنایا گیا۔ یہ گنبد بہت چھوٹا تھا اور صرف اس اندرونی روضہ مبارک کے اوپر ہے جو حضرت عائشہؓ کا حجرہ مبارک تھا۔ مملوک سلطان المنصور قلاوون (دور حکومت 1279ء تا 1290ئ) کی جانب سے تعمیرکرایا گیا یہ گنبد مبارک لکڑی کا بنا تھا۔ اس سے پہلے لگ بھگ 660 برس تک روضہ مبارک پر کوئی گنبد نہیں تھا۔ البتہ روضہ مبارک کی چھت اردگرد کی عمارتوں سے ذرا بلند کر دی گئی تھی۔ 678 ہجری میں تعمیر ہونے والے لکڑی کے گنبد کو محفوظ کرنے کے لیے اس کے اوپر سیسے کی تہہ چڑھائی گئی۔ یہ گنبد مبارک نیچے سے چوکور تھا اور اوپر سے اس کے آٹھ کنارے تھے۔ جہاں سے گنبد کی گولائی شروع ہوتی تھی۔ 881 ہجری (1476 عیسوی) میں ایک اور مملوک سلطان الاشرف سیف الدین قایتبائی کی جانب سے مسجد نبوی کی بھرپور تعمیر و مرمت کی گئی۔ اسی موقع پر ہی علامہ السمہودی کو اندرونی روضہ مبارک میں قبر انور کی زیارت کا شرف ملا۔ اس تعمیر و مرمت کے دوران لکڑی کا گنبد مبارک ہٹا کر پتھر سے گنبد تیار کیا گیا۔
تاہم تعمیر مکمل ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ 886 ہجری (1481عیسوی ) میں آسمانی بجلی گرنے سے مسجد نبوی میں آگ لگ گئی۔ سلطان قایتبائی نے ایک بار پھر تعمیر و مرمت کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کتب میں درج ہے کہ السمہودی نے 1477ء میں نہیں بلکہ 1481ء میں اندرونی روضہ مبارک کی زیارت کی تھی۔ تاہم خود علامہ السمہودی نے اپنی کتاب ’’وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفیٰ ﷺ‘‘ میں سن 881 ہجری درج کیا ہے جو 1477 عیسوی بنتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں 886 ہجری کی آتشزدگی کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ تاہم علامہ السمہودی لکھتے ہیں کہ اس وقت تک وہ مدینہ منورہ سے جا چکے تھے اور دوبارہ اس وقت لوٹے جب گنبد تعمیر ہوچکا تھا۔
بجلی گرنے سے لگنے والی آگ کے دوران اندرونی روضہ رسولؐ پر بنے گنبد مبارک کو نقصان پہنچا۔ تاہم 886 ہجری کی تعمیر و مرمت کے دوران ایک بار پھر حجرہ مبارک کے اوپر گنبد تعمیر کیا گیا۔ یہ پہلے گنبد جیسا ہی تھا تھا۔ فوراً بعد ہی مذکورہ گنبد کے اوپر ایک اور بڑا گنبد تعمیر کیا گیا۔ اس گنبد کو سہارا دینے کیلئے ستون، حجرہ مبارک اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تعمیرا کرائی گئی پنج دیواری سے باہر بنائے گئے۔ یہ ستون اس دیوار میں ہیں جس پر اب سبز رنگ کا غلاف موجود ہے۔
اندرونی روضہ مبارک یعنی حجرہ حضرت عائشہؓ پر بنایا گیا پہلا گنبد اپنی جگہ رہا اور آج بھی ہے۔
سلطان الاشرف قایتبائی کے دور میں بننے والے بڑے گنبد مبارک کو گنبد خضریٰ نہیں کہا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ سبز رنگ کا نہیں تھا۔ ابتدائی چھوٹا گنبد سیسے کے سبب چاندی کے رنگ کا تھا۔ تعمیر نو کے بعد جو اندرونی چھوٹا گنبد قایتبائی کے دور میں بنایا گیا، وہ نیلگوں تھا۔ جبکہ بڑے گنبد مبارک کا رنگ سفید اور جامنی رہ چکا ہے۔
1228 ہجری (1813 عیسوی) میں ترکوں نے بیرونی بڑے گنبد کو دوبارہ تعمیر کرایا۔ سلطان قایتبائی کے تعمیر کرائے گئے گنبد میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ نئی تعمیر اینٹوں سے ہوئی جس میں سیسہ بھی استعمال کیا گیا۔ یہ سلطان محمود دوم کا دور تھا۔ اس تعمیر نو کے 45 برس بعد 1848ء میں سلطان عبدالمجید اول کے دور میں گنبد مبارک پر سبز رنگ کیا گیا۔ اس وقت سے اب تک یہ گنبد خضریٰ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
گنبد حضریٰ اندرونی چھوٹے گنبد کے عین اوپر ہے۔ بیرونی گنبد کی طرح اندرونی گنبد میں بھی ایک کھڑکی موجود ہے۔ لیکن روایات کے مطابق اندرونی گنبد کے نیچے سیدھی چھت ہے۔ روضہ مبارک کی موجودہ بیرونی دیواروں کے اندر نہ صرف حضرت عائشہؓ کا حجرہ مبارک شامل ہے، بلکہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت حفصہؓ کے حجرے بھی اسی حدود میں ہیں۔ اگرچہ حضرت عائشہؓ کے حجرہ مبارک، جو اندرونی روضہ مبارک میں تبدیل ہوگیا، کے برعکس حضرت فاطمہؓ اور حضرت حفصہؓ کے حجرات کا کوئی نشان باقی نہیں۔
1845ء میں سلطان عبدالمجید اول کے دور میں روضہ مبارک کی تزئین نو اور اضافی تعمیرات کے دوران دو ستونوں کی نئی بنیادیں کھودی گئیں۔ ان میں سے ایک ستون کا نام ’’سریر‘‘ اور دوسرے کا ’’توبہ‘‘ ہے۔ ’’اسطوانہ السریر‘‘ نبی کریم ﷺ کے سرہانے کی طرف ہے اور روضہ مبارک کی موجودہ جالیوںکے درمیان میں ہے۔ یہ عین اس جگہ ہے جہاں نبی کریم ﷺ اعتکاف میں بیٹھے تھے۔ترک حکام کے مطابق جب ان ستونوں کے لیے نئی بنیادیں کھودی گئیں تو انتہائی خوش ذائقہ میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ یہ پانی نہ صرف وہاں موجود لوگوں نے پیا بلکہ عالم اسلام کے مختلف شہروں کو بھی بھیجا گیا، جن میں قسطنطنیہ بھی شامل تھا۔ لیکن پھر جب لوگ بڑی تعداد میں اس پانی کے لیے یہاں آنے لگے تو تعمیر نو مکمل ہوتے ہی اس چشمے کو بند کرا دیا گیا تاکہ روضہ رسولؐ کے قریب ہجوم لگنے کے باعث کوئی بے ادبی نہ ہو۔
واضح رہے کہ احترامِ نبی پاک ﷺ کا تقاضا ہے کہ روضہ رسولؐ کے قریب ہجوم لگانے اور بلند آواز میں گفتگو کرنے سے گریز کیا جائے۔ اسی احترام کا تقاضا تھا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں 91 ہجری میں اندرونی روضہ مبارک کو صاف کرنے کا معاملہ درپیش ہوا تو معمار نے کہا کہ کوئی ان کے ساتھ اندر جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اور حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر دونوں نے ہی خود کو پیش کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ تین افراد روضہ مبارک میں جاتے۔ حضرت عمر بن العزیزؒ نے روضہ مبارک کے اندر ہجوم لگانے کو بے ادبی تصور کیا۔ لہذا تین یا دو افراد کے بجائے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے غلام کو تنہا اندر بھیجا گیا۔
مسجد نبوی کی توسیع، دیکھ بھال اور حفاظت کے حوالے سے ایک اہم نام نور الدین زنگی کا ہے۔ جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا جسد مبارک چُرانے کی نصرانی سازش ناکام بنائی تھی اور روضہ مبارک کے اطراف 200 فٹ گہری خندق کھود کر اس میں سیسہ بھروا دیا تھا تاکہ کوئی بھی قبر انور کی جانب کھدائی کرکے نہ جا سکے۔ اس واقعے کا ذکر علامہ السمہودی نے مختلف حوالہ جات کے ذریعے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سلطان نورالدین زنگی خواب دیکھنے کے بعد 557 ہجری (1161 عیسوی) میں مدینہ آئے تھے۔ (جاری ہے)

فائل فوٹو
فائل فوٹو

عاشقان رسول کی فہرست میں ایک اہم نام عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید اول کا بھی ہے، جنہوں نے 1839ء سے 1861ء تک خلافت سنبھالی۔ سلطان عبدالمجید جہاں تبرکات مقدسہ جمع کرتے رہے، وہیں انہوں نے مسجد نبوی کی تزئین و آرائش اور مرمت پر بہت زور دیا۔ روضہ مبارک پر خوبصورت خطاطی میں اشعار بھی لکھوائے، جن میں قصیدہ بردہ شریف بھی شامل تھا۔ اگرچہ یہ اشعار سعودی دور میں مٹا دیئے گئے تاہم سلطان عبدالمجید کے دور میں مسجد نبوی کی خوبصورتی میں کئی دیگر اضافے بھی کیے گئے جو برقرار رہے۔ عمارت میں توسیع ہوئی۔ یہ کام 13 برس تک جاری رہا۔ مدینہ منورہ کے قریب جبل الجماوات سے سرخ پتھرلا کر ستونوں کی تعمیرکی گئی۔ دیواروں میں سنگ سیاہ کا استعمال ہوا۔ اس دوران روضہ مبارک کے ساتھ دو ستونوں کی نئی بنیادیں کھودی گئیں۔ ان میں سے ایک ستون کا نام ’’سریر‘‘ اور دوسرے کا ’’توبہ‘‘ ہے۔’’اسطوانہ السریر‘‘ نبی کریم ﷺ کے سرہانے کی طرف ہے اور روضہ مبارک کی موجودہ جالیوں کے درمیان میں ہے۔ یہ عین اس جگہ ہے جہاں نبی کریم ﷺ اعتکاف میں بیٹھے تھے۔ ترک حکام کے مطابق جب ان ستونوں کے لیے نئی بنیادیں کھودی گئیں تو انتہائی خوش ذائقہ میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ یہ پانی نہ صرف وہاں موجود لوگوں نے پیا بلکہ عالم اسلام کے مختلف شہروں کو بھی بھیجا گیا، جن میں قسطنطنیہ بھی شامل تھا۔
اس پانی کی تقسیم کے لیے چمڑے سے بنے مشکیزے استعمال ہوئے۔ تصویر میں نظرآنے والا مشکیزہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ خیال ہے کہ مسجد نبوی میں پھوٹنے والے چشمہ مبارک کا پانی اس میں بھر کے قسطنطنیہ بھیجا گیا تھا۔
ترک حکام کے مطابق چشمہ پھوٹنے کی اطلاع سن کر لوگ روضہ مبارک کے قریب جمع ہونے لگے۔ روضہ رسول کی بے ادبی کے خدشے کے پیش نظر حکام نے تعمیر و مرمت کا کام مکمل ہوتے ہی مذکورہ چشمے کو بند کردیا۔