عارف انجم:
قسط نمبر 26
تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’جامع القرآن‘‘ یعنی قرآن جمع کرنے والا کہا جاتا ہے۔ کیونکہ عام مشہور یہی ہے کہ انہوں نے قرآن ایک جگہ جمع کیا تھا۔ تاہم اسلامی تاریخ کے بغور مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن پاک کو جمع کرنے کا کام حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں ہو چکا تھا اور حضرت عثمانؓ نے قریش مکہ کے لہجے کے مطابق قرآن پاک کے معیاری نسخے تیار کرانے کا عظیم کام انجام دیا تھا۔ آپؓ کی شہادت بھی ایسی حالت میں ہوئی کہ آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ لہذا آپ کے خون کے چھینٹے قرآن پاک کے نسخے پر پڑے۔
حضرت عثمان بن عفان قریش کی ایک شاخ بنو امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف میں پیدا ہوئے۔ یہ قبیلہ سرداران قریش میں سے تھا۔ قبول اسلام سے پہلے بھی صائب الرائے اور ذہین انسان تھے۔ کبھی کسی بت کو سجدہ نہ کیا۔ پیشہ تجارت اور اپنا مال مسلمانوں پر خرچ کرنے کے سبب عثمان غنی بھی کہلائے۔
حضرت عثمانؓ کو 35 ہجری (بمطابق 656 عیسوی) میں مدینہ منورہ میں شہید کیا گیا۔ آپ کے گھر کا محاصرہ چالیس روز جاری رہا۔ جس وقت شر پسند آپؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ تیسرے خلیفہ راشدؓ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ شر پسندوں کے وار سے خون کے چھینٹے قرآن پاک پر پڑے۔ اس المناک واقعے نے مسلمانوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے صدیوں بعد 16 ویں صدی عیسوی میں حجاز عثمانی سلطنت کے کنٹرول میں آیا اور 20 ویں صدی کے آغاز تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ 19 ویں صدی کے عثمانی مورخ احمد صابری پاشا کا کہنا ہے کہ جب وہ مکہ، مدینہ اور قاہرہ میں مقیم رہے تو انہوں نے قرآن پاک کے کئی نسخے دیکھے۔ جن میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ قرآن پاک کا وہی نسخہ ہے۔ جو پڑھتے ہوئے حضرت عثمان شہید ہوئے تھے۔ تاہم تحقیق پر انہیں معلوم ہوا ہے کہ یہ نسخے حجاج کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔ جن پر سرخ نشانات خون کے نہیں بلکہ رنگ کے ہوتے تھے۔ ان نسخوں کا مقصد حضرت عثمانؓ کی شہادت کی یاد تازہ کرنا تھا۔ نسخے حاصل کرنے والوں کو بھی یہ حقیقت معلوم ہوتی تھی۔
ایک اور ترک مورخ اور مصنف طاسین اوز کا کہنا ہے کہ توپ کاپی میوزیم کے دار خرقہ سعادت میں جو عثمانی دور کا قرآن پاک محفوظ ہے، وہ اصل ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین اس بات پر اصرار نہیں کرتے کہ یہ وہی نسخہ ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے تھے۔
حلمی ایدین کی احتیاط کا سبب یہ ہے کہ مختلف خطوں میں قرآن پاک کے قدیم نسخوں کے حوالے سے یہی روایات چلی آرہی ہیں۔ قرآن پاک کا ایسا ایک قدیم نسخہ ازبکستان میں بھی موجود ہے۔ جسے ’’سمرقندکوفی قرآن‘‘ اور ’’مصحف عثمانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نسخے کے حوالے سے روایات ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ان کے قرآن مبارک کو حضرت علیؓ اپنے ساتھ کوفہ لے گئے تھے۔ صدیوں بعد جبامیر تیمور نے مختلف ممالک کو فتح کیا تو یہ نسخہ وہ سمر قند لے گیا۔ جب روسی انقلاب آیا تو اس وقت اس نسخے کو لینن کے گراڈ عجائب گھر میں پہنچا دیا گیا۔ پھر جب وسط ایشیا کی ریاستیں (ازبکستان، ترکمانستان وغیرہ) آزاد ہوئیں تو ازبکستان کی حکومت نے پر زور مطالبہ کیا کہ انہیں مصحف عثمانی واپس کیا جائے۔ چنانچہ بڑے ادب و احترام کے ساتھ اس قرآن مجید کو تاشقند لاکر اس عمارت میں رکھا گیا۔ جہاں یہ اس وقت موجود ہے۔ دو ڈاکٹر حضرات کی ڈیوٹی ہے کہ وہ کمرے کے درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کی مقدار پر نظر رکھیں۔ قرآن مجید پر مختلف کیمیکلز کا اسپرے کرتے رہیں۔ تاکہ یہ نسخہ خراب نہ ہو۔
توپ کاپی میوزیم اور سمرقند میں موجود قرآنی نسخے لگ بھگ ایک جیسے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کسی کے بارے میں یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ حضرت عثمانؓ شہادت کے وقت اس نسخے سے تلاوت کر رہے تھے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ قرآن پاک حضرت عثمانؓ کے دور کے ہیں۔ اس وقت سمرقند میں موجود قرآن پاک کا نسخہ جب سوویت تحویل میں تھا تو اس کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی گئی۔ اس سائنسی طریقہ کار سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کوئی چیز کتنی پرانی ہے۔ ریڈیوکاربن ڈیٹنگ میں مذکورہ نسخہ 8 ویں یا 9 ویں صدی کا قرار دیا گیا۔ یاد رہے کہ حضرت عثمانؓ کا دور 7 ویں صدی کا ہے اور ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے نتائج اس کے قریب ہیں۔ اگرچہ بہت زیادہ قریب نہیں۔
حضرت عثمانؓ نے قرآن پاک کے نسخے مدینہ میں لکھوا کر اسلامی سلطنت کے مختلف خطوں میں بھیجے تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب اسلامی سلطنت کی توسیع ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مختلف ممالک میں پھیل گئے اور وہاں وہ قرآن ان سات لہجوں میں ہی پڑھتے تھے۔ جن میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ تواس طرح ان کے شاگرد اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ ان کے شیخ اور استاد نے انہیں پڑھایا تھا۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کے مختلف لہجے بھی تھے۔
جب ایک شاگرد اپنے ہم عصر بھائی کو قرآن کسی اور لہجے میں پڑھتا ہوا دیکھتا تو وہ اسے غلط کہتا اور اس کا انکار کرتا۔ یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو صحابہ کرامؓ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ تابعین اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان فتنہ نہ پیدا ہوجائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں، حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے جو کہ آرمینیا اورآذربائجان کو فتح کرنے کے لیے اہل عراق کے ساتھ مل کر شامیوں سے غزوہ کر رہے تھے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآت میں ان کے اختلاف نے فکر مند کر دیا تھا۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! اس امت کو کتاب اللہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اختلاف کرنے سے پہلے ہی پکڑ لیں۔ تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ مصحف دے دیں (جو حضرت ابو بکر کے زمانے میں جمع کیا گیا اور جو حضرت عمرؓ نے آپ کے پاس رکھوایا تھا) تاکہ ہم اس کے نسخے تیار کرنے کے بعد یہ مصحف آپ کو واپس کر دیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، سعید بن عاصؓ اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشامؓ کو مصحف سے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا اور اس گروہ میں سے تین قریش کو یہ کہا کہ اگر تم اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کی کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے قریش کی لغت میں دیکھو۔ کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔
جب نسخے تیار ہوچکے تو عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصحف ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو واپس کر دیا اور ان نسخوں میں سے ہر طرف ایک نسخہ بھیج دیا۔ (جاری ہے)
توپ کاپی میوزیم میں موجود حضرت عثمان غنیؓ کے دور کا قرآن پاک- گمان ہے کہ شہادت کے وقت تیسرے خلیفہ راشد اسی نسخے سے تلاوت کر رہے تھے۔فائل فوٹویہ قرآن پاک تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا ہے۔ قرآن پاک کے قدیم ترین نسخوں میں شامل یہ نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کو شہید کیا گیا تو وہ قرآن پاک کے اسی نسخے کی تلاوت کر رہے تھے اور اس پر خون کے نشانات موجود ہیں۔ تاہم توپ کاپی میوزیم حکام کے مطابق اس بات کی کوئی حتمی سند نہیں۔ اور چونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں 7 ویں صدی عیسوی کے قرآن پاک کے ایسے نسخے موجود ہیں۔ جنہیں حضرت عثمانؓ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لہٰذا توپ کاپی میوزیم میں موجود اس قرآن پاک کو بھی حضرت عثمانؓ سے منسوب نسخہ کہنا درست ہوگا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ نسخہ حضرت عثمانؓ کے دور کا ہی ہے۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں قرآن پاک کے چھ نسخے مدینہ میں لکھوا کر اسلامی سلطنت کے مختلف علاقوں کو بھیجے گئے تھے۔
قرآن پاک کے اس قدیم نسخے کا سائز 46×41 سینٹی میٹر ہے۔ اس کے 410 صفحات ہیں اور ہر صفحے پر 17 سطریں ہیں۔ تمام صفحات چمڑے کے ہیں۔ جن پر ڈارک براؤن سیاہی سے قرآن پاک کی عبارت تحریر ہے۔ رسم الخط کوفی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس نسخے کی جلد سازی کے لیے جو چمڑا استعمال کیا گیا ہے۔ وہ بعد کے دور کا ہے۔ جلد کے کناروں پر حفاظتی تہہ بھی چڑھائی گئی ہے۔ اس نسخے کے ساتھ 19 ویں صدی کی ایک تحریر بھی ہے۔ جو کاغذ پر لکھی گئی ہے۔ خط نسخ میں لکھی اس تحریر میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ مقدس قرآن جو کاتب وحی ذوالنورین (حضرت عثمان بن عفانؓ کا لقب) کے ہاتھ کا تحریر کردہ ہے۔ گورنر مصر محمد علی پاشا نے 1226 ہجری (بمطابق 1821 عیسوی) قسنطنطیہ (استنبول) بھیجا‘‘۔