عارف انجم:
قسط نمبر: 29
مجمع الزوائد، السیر الحلیہ اور الریاض النصرہ میں ہے کہ حضر ت علی المرتضیٰؓ نے ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے بہادر کون ہے؟ صحابہ کرامؓ نے کہا کہ آپ ہیں۔ آپؓ نے فرمایا میں نے کسی سے مبارزت طلب نہیں کی، مگر اس سے پورا انتقام لیا۔ لیکن تم مجھے بتاؤ کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم آپ ہی بتادیں کہ کون ہے۔ آپؓ نے فرمایاکہ لوگوں میں سب سے بہادر ابوبکرؓ ہیں۔ کیونکہ غزوہ بدر کے دن جب ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے ایک عریش (چھپر) تیار کیا تو ہم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا؟ تاکہ کوئی مشرک، آپؐ کی طرف نہ بڑھ سکے۔ ابوبکرؓ، حضور پاک ﷺ کے پاس تلوار سونت کر اس مستعدی سے کھڑے ہوئے کہ جونہی کوئی دشمن ادھر کا رخ کرتا آپؓ اس پر جھپٹ پڑتے۔ السیر الحلیہ کے مطابق حضرت علیؓ نے یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو بنو فزارہ کے خلاف نکلنے والی فوج کا سربراہ بنا کر بھی بھیجا، انہوں نے ہر اس کو قتل کیا جس نے قتل ہونا تھا اور ہر اس کو قیدی بنایا جس نے قیدی بننا تھا۔
بنو فزارہ کے خلاف مہم کے حوالے سے روایت کر تے ہوئے اما م احمدؒ فرماتے ہیں کہ ان سے یکے بعد دیگرے بہذام، اکرمہ بن عمّار، ایاس بن سلمہ اور خود ان کے والد نے فر مایا کہ ’’ابوبکر بن قحافہ (واضح رہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا پورا نام ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی ہے) کے ساتھ ہم لوگ مدینے سے بنو فزارہ کے خلاف جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔‘‘ اسی کو امام احمدؒ نے آگے ایاس بن سلمہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ ’’راستے میں جو بھی جنگجو ملتا گیا اور آمادہ پیکار ہوا تو ہم اس کو قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے حتیٰ کہ ہم ان کے کنویں تک پہنچ گئے۔ جہا ں پہنچ کر حضرت ابوبکرؓ نے ہمیں پڑاؤ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن تب تک بنی فزارہ ہماری آمد کی خبر سن کر اپنی بستی چھوڑ، پہاڑوں پر چڑھ چکے تھے۔ ہم نے اگلے روز نماز فجر کے بعد پہاڑوں میں انہیں تلاش کرنا شروع کردیا اور جہاں بھی ان کی کوئی ٹکڑی ملی، اس سے جنگ کی۔ حتیٰ کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہم نے ان کے باقی ماندہ لو گوں کو گرفتار کرلیا۔‘‘
یہی روایت صحیح مسلم (حدیث نمبر 4573) میں بھی ہے۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ہم نے جہاد کیا فزارہ سے اور ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امیر بنایا تھا ہم پر۔ جب ہمارے اور پانی کے بیچ میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہا (یعنی اس پانی سے جہاں فزارہ رہتے تھے) حکم کیا ہم کو ابو بکرؓ نے، ہم پچھلی رات کو اتر پڑے پھر ہر طرف سے حکم کیا حملہ کا اور پانی پر پہنچے۔ وہاں جو مارا گیا، مارا گیا اور چھ قید ہوئے۔‘‘
بنو فزارہ، نجد کا ایک قبیلہ تھا جس نے مدینہ کے باہر گشت کرنے والے مسلمانوں کے ایک دستے پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔ اس قبیلے کیخلاف ایک مہم چھ ہجری میں بھیجی گئی۔
نبی کریم ﷺ کے آلات حرب پر تحقیق کرنے والے اسکالر حسن التہامی نے اپنی کتاب سیوف الرسول میں صحابہ کرامؓ کی تلواروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایسی مہمات کے دوران حضرت ابوبکرؓ کے پاس ایک ہی تلوار رہی۔ آپؓ سے منسوب یہ تلوار اب استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ یہ شمشیر مبارک، مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوران بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس تھی۔
مختلف روایات کے مطابق غزوہ بدر کے دوران جنگ شروع ہونے سے پہلے دستور کے مطابق کفار کی جانب سے حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمان بن ابی بکرجواب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے نکلے اور مبازرت طلب کی۔ حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے، لیکن حضور ﷺ نے اجازت نہیں دی اور فرمایاکہ تلوار نیام میں رکھ لو۔ حضرت عبدالرحمان نے مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ سے ذکر کیاکہ ابا جان! غزوہ بدر میں ایک مرتبہ آپ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے، لیکن میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ بیٹے اگر تو میری تلوار کی زد میں آگیا ہوتا تو میں تیری گردن اڑائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
کشف الغمہ فی معرف الائمہ میں ہے عروہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر الصادقؒ سے سوال کیاکہ تلواروں کے دستے پر چاندی چڑھانا جائز ہے؟ آپؒ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنی تلوار کے دستے پر چاندی چڑھائی تھی۔ (عروہ کا گمان بھی یہ تھا کہ شاید اہل بیتؓ اور صحابہؓ میں ناچاقی ہے، اس بنا پر) انہوں نے پوچھا ’’آپ بھی اْنہیں صدیق کہتے ہیں؟‘‘ وہ کہتے ہیں یہ سن کر امام جعفر الصادق جلال میں کھڑے ہوگئے، قبلہ رخ ہوئے اور تین مرتبہ فرمایا ’ ہاں! وہ صدیق ہیں اور جو انہیں صدیق نہیں کہے گا، اس کی بات کو اللہ دنیا اور آخرت میں جھوٹا ثابت کرے گا‘‘ (صفحہ:362)۔ امام جعفر الصادقؒ فرمایا کرتے تھے ’’میرا حضرت ابوبکرؓ سے دہرا نسبی رشتہ ہے‘‘، آپ کی والدہ اْم فروہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پڑپوتی تھیں۔ یعنی قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیقؒ کی صاحبزادی تھیں اور اْمِ فروہ کی والدہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پوتی تھیں۔ یعنی اسماء بنت عبدالرحمان بن ابی بکر تھیں (ص:376)۔
حضرت ابوبکرؓ کے محض دو برس اور ساڑھے تین ماہ پر مشتمل دور خلافت کے دوران نہ صرف کاذبین اور ارتداد کے فتنے کی سرکوبی کی گئی، بلکہ وقت کی دو بڑی سلطنتوں فارس اور روم سے بھی مسلمانوں نے کامیابی سے ٹکر لی۔ آپؓ کے دور میں عراق اور شام کے خاصے علاقے فتح ہوچکے تھے۔(جاری ہے)
توپ کاپی میوزیم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے منسوب تلوار کی لمبائی ساڑھے 98 سینٹی میٹر ہے۔ جب کہ اس کا وزن 850 گرام ہے۔ اس شمشیرِ مبارک کا دستہ چمڑے سے بنا ہے اور تھوڑا سا مڑا ہوا ہے۔ دستے کے آخری سرے پر گول گانٹھ سونے سے بنی ہے۔ حسن التہامی کے مطابق یہ دستہ بعد میں لگایا گیا۔ ترک سلاطین نے دستہ بنوانے کے لیے مخصوص سیاہ چمڑا استعمال کیا، جسے ویلوٹ کی طرح نرم اور چمکدار بنایا گیا ہے۔
توپ کاپی میوزیم کے حکام کا کہنا ہے کہ دستے اور تلوار کے پھل کے درمیان موجود حفاظتی آہنی ٹکڑے (انگریزی میں کراس گارڈ) پر حضرت ابوبکرؓ نے چاندی چڑھائی تھی۔ اس کی تصدیق حضرت عروہ بن عبداللہؒ کی ایک روایت سے ہوتی ہے۔
تلوارِ مبارک کا پھل دو دھاری ہے اور اس کا سرا نوکیلا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تلوار مبارک کے لیے نیام بھی ترک سلاطین کے دور میں تیار کی گئی جس پر سونے سے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ دو بکل لگائے گئے ہیں، جن میں سے ایک پر فیروزہ اور دوسرے پر یاقوت جڑا ہے۔
پہلے خلیفہ راشدؓ کی یہ تلوارِ مبارک ایک مخملی غلاف میں لپیٹ کر رکھی جاتی ہے۔ غلاف کے اوپر تحریر ہے کہ یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تلوار ہے۔