عارف انجم:
قسط نمبر 32
اسلام میں کسی تلوار کو اتنی شہرت حاصل نہیں ہوئی جتنی ’’ذوالفقار‘‘ کو ہوئی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، یہ نبی کریم صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار تھی۔ جو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا کی تھی اور پھر یہ اہل بیت کے پاس رہی۔ پہلی مرتبہ غزوہ احد میں نبی کریم ﷺ نے اپنی تلوار حضرت علیؓ کو دے کر میدان جنگ میں بھیجا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی کفار کے سر اس تلوار سے قلم کیے تھے۔ تاہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلوار دینے کا زیادہ مشہور واقعہ غزوہ خیبر سے متعلق ہے۔ حضرت علیؓ نے اپنی تلوار سے یہود کے مشہور جنگجو مرحب کو ہلاک کیا تھا۔
ذوالفقار کے بارے میں عام طور پر یہی مشہور ہے کہ یہ دو سروں (دہرے بلیڈ) والی تلوار ہے۔ مختلف خیالی تصاویر میں اس کے دونوں سرے شروع میں ملے ہوئے ہیں اور آگے جا کر الگ الگ ہوتے ہیں۔ بعض تصاویر میں یہ صرف آخری سرے پر الگ ہو رہے ہیں۔ اور بعض تصاویر میں دونوں پھل (بلیڈ) دستے کے فوراً بعد ہی الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ خیالی تصاویر ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی تلواروں پر تحقیق کرنے والے حسن التہامی نے توپ کاپی میوزیم میں موجود ایک تلوار کو ’’ذوالفقار‘‘ کے طور پر شناخت کیا ہے۔ مذکورہ تلوار کا ایک ہی پھل ہے۔ دائرۃ المعارف الاسلامیہ میں بھی ذوالفقار کا ایک ہی سر ہونے کی بات کی گئی ہے۔
اس کے باوجود ذوالفقار کے بارے میں تصور دو سروں والی تلوار کا ہی رہا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے مختلف ادوار کے کئی فوجی پرچموں پر دو سروں والی الذوالفقار کی تصاویر موجود ہیں۔
تاریخ طبری کا انگریزی ترجمہ کرنے والے جرمن پروفیسر فرانز روزن تھال کا کہنا ہے کہ تاریخ طبری میں مرحب کی ہلاکت کے بیان سے یہ تاثر قائم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار ’’ذوالفقار‘‘ دہرے پھل (بلیڈز) والی تھی۔ طبری نے لکھا کہ حضرت علیؓ نے مرحب کے سر پر ایسے وار کیا کہ تلوار چیرتی ہوئی اس (مرحب) کے پچھلے دانتوں تک پہنچ گئی۔ عربی میں طبری نے ’’حتی عض السیف منھا باضراسہ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جن کا لفظی مطلب بنتا ہے: ’’یہاں تک کہ تلوار نے اسے اپنے دانتوں سے کاٹ لیا‘‘۔ پروفیسر فرانز روزن تھال کا کہنا ہے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ تلوار کے ایک سے زائد سر تھے یا اس کے کئی دانت بنے ہوئے تھے۔
ذوالفقار کی ایک اور وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ’’فقار‘‘ ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور اس تلوار کے بلیڈ کے وسط میں ایک ابھار تھا۔ توپ کاپی میوزیم میں جس تلوار کو حسن التہامی نے ’’ذوالفقار‘‘ کے طور پر شناخت کیا ہے۔ اس کے بیچ میں دستے سے لے کر نوک تک ایک ابھار موجود ہے۔ یادرہے کہ حسن التہامی نے 1929ء کے لگ بھگ توپ کاپی میوزیم کے حکام کے تعاون سے اپنا مقالہ تیار کیا تھا۔ جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ توپ کاپی میوزیم کے حکام بذات خود یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ذوالفقار ان کے میوزیم میں موجود ہے۔
حسن التہامی تاریخ طبری کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ احد کے بعد میدان جنگ سے واپس لوٹے تو آپؓ کے ہاتھوں سے لے کر کندھوں تک پورے بازو (کفار کے) خون سے لت پت تھے اور ذوالفقار آپ کے ہاتھ میں تھی۔ تاریخ طبری میں ہی روایت ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفار کے جتھوں کو ہلاک کر رہے تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی آواز آئی ’’لَا سَیفَ اِلاّ ذُوالفقَار- وَلاَ فَتیٰ الّا عَلِی‘‘ (ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں اور (حضرت) علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جیسا کوئی بہادر نوجوان نہیں‘‘۔ اہل تشیع کی بعض روایات میں دوسرے جملے کو پہلے لکھا جاتا ہے۔
تاریخ طبری کے مطابق ذوالفقار جنگ بدر کے دوران مال غنیمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی تھی۔ اہل تشیع کی بعض روایات کے مطابق جبرئیل امین اسے آسمان سے اپنے ساتھ لائے تھے۔
حسن التہامی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد یہ تلوار حضرت حسینؓ کے پاس رہی۔ کربلا میں بھی ان کے ساتھ تھی۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد یہ ان کے بیٹے علی بن الحسین زین العابدین کے پاس رہی۔ پھر یہ تلوار محمد بن عبداللہ بن الحسن کے پاس آئی۔ جو محمد نفس الزکیہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے عباسی خلیفہ المنصور کو چیلنج کیا تھا۔ محمد نفس الزکیہ کی خلافت کو مدینہ کے بہت سے لوگوں نے تسلیم کرلیا تھا۔ لیکن پھر منصور کی فوج نے مدینہ پر چڑھائی کی اور آپ شہید کر دیئے گئے۔
حسن التہامی کے مطابق اس کے بعد یہ تلوار عباسی خلفا کے پاس آگئی۔ بعد ازاں یہ فاطمی سلطنت کے پاس رہی اور پھر جب خلافت ترکوں کو منتقل ہوئی تو ذوالفقار بھی عثمانی سلطنت کے پاس آگئی اور توپ کاپی محل میں پہنچی۔
حسن التہامی نے اپنی کتاب میں ذوالفقار کی جو پیمائش بتائی ہے۔ اس کے مطابق یہ تلوار دستے سمیت 104 سینٹی میٹر طویل ہے۔ بلیڈ کی لمبائی 89 سینٹی میٹر ہے۔ قبضے کی چوڑائی 6 سینٹی میٹر ہے اور نوک کے قریب چوڑائی 4 اعشاریہ 5 سینٹی میٹر ہے۔ تلوار کے بلیڈ پر درمیان میں ابھار ہے۔ جو دستے سے سرے تک جاتا ہے۔
اس پیمائش اور حلیے کی ایک تلوار توپ کاپی میوزیم میں میوزیم ہے۔ تاہم میوزیم حکام اسے ذوالفقار نہیں کہتے۔
توپ کاپی میوزیم میں جس تلوار کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ 112 سینٹی میٹر طویل اور 1618 گرام وزنی ہے۔ اس کے بلیڈ پر درمیان میں ’’لا سیف الا ذوالفقار، ولا فتیٰ الا علی‘‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔ توپ کاپی میوزیم کے حکام اسے بھی ’’ذوالفقار‘‘ قرار نہیں دیتے۔ البتہ اسے میوزیم میں اس جگہ رکھا گیا ہے۔ جہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر اہل بیت کے تبرکات محفوظ ہیں۔
عرب اسکالر حسن التہامی نے توپ کاپی میوزیم میں موجود تلواروں میں سے ایک کی شناخت ’’ذوالفقار‘‘ کے طور پر کی تھی۔ التہامی نے اس تلوار کی تصاویر اور پیمائش بھی اپنی کتاب ’’سیوف الرسول (ﷺ) و عدۃ حربہ‘‘ میں شائع کی۔ یہ تلوار 104 سینٹی میٹر طویل ہے اور اس کا وزن 1276 گرام ہے۔ دستہ لکڑی سے بنا ہے۔ جس پر سیاہ چمڑا مڑا گیا ہے۔ دستے کی آخری گولائی لوہے سے بنا کر اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ گولائی پر نقش و نگار بنے ہیں۔ دستے اور بلیڈ کے درمیان موجود آہنی حفاظتی ٹکڑے میں خوبصورتی کے لیے کئی سوراخ بنائے گئے ہیں۔ اس آہنی ٹکڑے کے دونوں سرے تلوار کے بلیڈ کی طرف مڑے ہیں اور سانپ کے پھنوں کی شکل کے ہیں۔ ان کے آخر میں زمرد جڑے ہیں۔ حفاظتی آہنی ٹکڑے کی یہ شکل اس بات کا اظہار ہے کہ یہ تلوار زمانہ اسلام سے قبل کی ہے۔ اس تلوار کی سب سے اہم بات بلیڈ کے درمیان میں ایک ابھار بنا ہوا ہے۔ جو دستے سے لے کر نوک تک جاتا ہے۔ حسن التہامی کا کہنا ہے کہ یہی ابھار اس ذوالفقار کی وجہ تسمیہ ہے۔
حضرت علی ابن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب دوسری تلوار بھی خاصی وزنی ہے۔ یہ 112 سینٹی میٹر طویل اور 1618 گرام کی ہے۔ لکڑی کے دستے پر سرخ چمڑا مڑا گیا ہے۔ جس پر نقش و نگار بنے ہیں۔ دستے کی آخری گولائی پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ تلوار کے بلیڈ پر بھی کئی نقش و نگار بنے ہیں۔ اس تلوار کی سب سے اہم بات بلیڈ پر موجود تحریر ’’لا فتیٰ الا علی و لا سیف الا ذوالفقار‘‘ (علی جیسا کوئی بہادر نوجوان نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں) ہے۔ یہی تحریر تلوار کی نیام پر بھی موجود ہے۔ یہ تلوار توپ کاپی میوزیم کے اس حصے میں رکھی گئی ہے۔ جہاں پر حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا صندوق اور اہل بیت کے دیگر تبرکات موجود ہیں۔