دہلی میں روہنگیا مہاجر کیمپ کو آگ لگا کر تمام خیمے جلا دیئے گئے۔ تپش اور حبس والی گرمی میں شاہین باغ کے نزدیک کنچن کنج کیمپ کے تمام 270 مہاجرین کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔
بھارت سے ملنے والی میڈیا رپورٹ کے مطابق مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہیں زمین خالی کرنے کیلئے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اوکھلا کے سابق ایم ایل اے آصف محمد خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے روہنگیا کیمپ میں لگنے والی آگ کو سازش قرار دیا اور کہا کہ یہ اترپردیش کی زمین ہے اورفرقہ پرست طاقتیں یہاں سے روہنگیا مہاجرین کو ہٹانا چاہتی ہیں۔ جبکہ یو این ایچ آر سی نے ان سب کو اس ملک میں رہنے کیلیے عارضی شناختی کارڈ دیے ہیں۔ مہاجرین میں 30 سالہ جعفر بھی شامل ہے، جو رکشہ چلاتا ہے۔ ظفر کے 3 بچے ہیں۔ وہ 2012ء سے اس کیمپ میں رہ رہا ہے۔
جعفر نے میڈیا کو بتایا کہ شام کو کچھ لوگ آئے اورانہیں وہاں سے جانے کی دھمکی دی۔ اس سے پہلے بھی انہیں جگہ خالی کرنے کیلئے کئی بار دھمکیاں دی جا چکی ہیں۔ اس واقعے میں 80 سالہ امام خورشید نے بمشکل اپنے آپ کو آگ کے شعلوں سے بچایا۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ’’جب شور مچا تو ہم باہر بھاگے۔ لیکن دروازے پر آگ لگی تھی۔ میں نے گھر کے پیچھے سے دیوار کود کر اپنی جان بچائی‘‘۔ امام کے کپڑے جل گئے اورانہیں چوٹ بھی آئی ہیں۔ امام کا تعلق برما کے صوبہ اراکان سے ہے اور وہ 2012ء سے یہاں مقیم ہیں۔
روہنگیا مہاجر منیر احمد کے بقول ’’رات کو آگ لگی اور جھگی میں سارا سامان جل کر راکھ ہوگیا۔ صرف جو کپڑے میں نے اور میری بیوی نے پہنے تھے، وہی بچے ہیں‘‘۔ ایک اور متاثرہ روہنگیا مہاجر غفران نے کہا ’’ہمارا سارا سامان، یہاں تک کہ یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ شناختی کارڈ بھی جل گئے ہیں۔ ہم بہت پریشان ہیں‘‘۔
کیمپ میں آگ اتواراور پیرکی درمیانی شب تقریباً 11 بج کر 45 منٹ پر لگی۔ متاثرین کے مطابق انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہوا کہ آگ کیسے لگی۔ آگ اتنی خوفناک تھی کہ اس کے شعلے دور سے بھی نظر آرہے تھے۔ روہنگیا مہاجرین کے کیمپ میں تقریباً 57 خاندان آباد ہیں۔ جن میں کل 270 ارکان شامل ہیں۔ 2012ء میں یہ کیمپ روہنگیا مہاجرین کیلیے قائم کیا گیا تھا۔ آگ لگنے کی اطلاع ملنے کے بعد موقع پر پہنچنے والی فائر بریگیڈ دو گھنٹے تک آگ بجھانے کے مشن میں لگی رہی تاہم اس دوران تمام جھگیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل روہنگیا مہاجرین کو ہٹانے کی متعدد کوششیں کی گئی تھیں جو 2012ء سے کالندی کنج سے پہلے کنچن کنج میں ایک خالی میدان میں رہ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند اور مقامی لوگ مہاجرین کو فوری امداد فراہم کر رہے تھے۔ اس کام میں سابق ایم ایل اے آصف محمد خان کی ٹیم اور اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن دہلی کے کارکن پیش پیش ہیں۔
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے روہنگیا مہاجرین کی جھگیوں کے جلنے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی ان کی جھگیاں جلائی گئی تھیں۔ تحقیقات ہونی چاہیے کہ آخر جھگیاں کیسے جلیں۔
جمعیت علمائے ہند نے پریس ریلیز میں دعوی کیا ہے کہ وہاں پر موجود یو پی ایریگشن کے افسران سے جب تعاون کا مطالبہ کیا گیا تو ان کا جواب چونکانے والا تھا۔ ایک سینئر افسر نے کہا ’ہم بھی چاہتے ہیں کہ ان پریشان حال لوگوں کا تعاون کیا جائے لیکن ہم مجبور ہیں۔ ہماری نوکری کا معاملہ ہے‘۔ فی الحال دہلی سرکار کی جانب سے ٹینٹ لگاکر مہاجرین کو ان میں رکھا جائے گا۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے مہاجرین کے لیے نئے خیموں کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل اپریل 2021ء میں جموں میں بھی روہنگیا مہاجرین کے کیمپ میں آگ لگی تھی۔ 5 اپریل 2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جموں کے ماروتی محلے میں آگ کی ایک پراسرار واردات روہنگیا مہاجرین کی قریباً دو درجن جھونپڑیاں خاکستر ہوگئی تھیں۔ آگ درمیانی شب سے شروع ہوکر پیر کی صبح تک جاری رہی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آگ لگنے کی یہ واردات عدالت عظمیٰ کے روہنگیا مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجنے کی پٹیشن پر فیصلہ محفوظ رکھنے کے بعد پیش آئی۔
جموں کے مقامی لوگوں کا کہنا کہ روہنگیا مہاجرین کی بستیاں خاکستر ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے پراسرار واقعات پیش آئے ہیں۔ مودی حکومت نے اسی سال اپریل میں بھارت کے متعدد علاقوں میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو پکڑ کر انہیں حراستی مراکز میں منتقل کرنا شروع کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں میں زبردست خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
نئی دہلی میں سڑکوں پر کھلونے بیچ کر زندگی گزارنے والے ایک روہنگیا مہاجرنے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ انہیں ایک طرف اپنے ملک میانمار میں، فوجی بغاوت کے بعد تشدد پر شدید تشویش ہے۔ وہیں بھارت میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے خوف لاحق ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’بھارت میں روہنگیا مہاجرین اس وقت بہت خوف میں ہیں۔ کیونکہ پولیس، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فار ریفیوجیز کی جانب سے مہیا کیے گئے ریفیوجی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود بھی، جب دیکھو ہمیں اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ کورونا وبا کے دور میں ویسے ہی جینا مشکل تھا۔ پولیس کی ان کارروائیوں کی وجہ سے ہماری زندگی محال ہو گئی ہے‘‘۔ بھارتی پولیس نے اپریل میں دہلی کے کالندی کنج علاقے میں بسنے والے متعدد روہنگیا مہاجرین کو گرفتار کر کے حراستی کیمپ بھیج دیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ ان افراد کے پاس بھارت میں رہنے کیلیے مناسب دستاویزات نہیں تھیں۔ اس لیے انہیں حراست میں لیا گیا۔ اب جبکہ ان کے دستاویزی ثبوت بھی ختم ہوگئے ہیں تو انہیں مزید تنگ کیا جائے گا۔ جموں میں حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے 155 ایسے روہنگیا مسلمانوں کو ہولڈنگ سینٹر میں بھیجا ہے۔ جن کے پاس نہ تو پاسپورٹ ہیں اور نہ ہی یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کیا جانے والا کوئی شناختی کارڈ۔
جموں کے ایک مقامی صحافی نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ حکومت نے جو تعداد بتائی ہے اصل میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور، حکومت جسے ہولڈنگ سینٹر بتا رہی ہے وہ در اصل ایک طرح کی جیل ہے۔ جہاں ایسے تمام افراد کو حراست میں رکھا جا رہا ہے۔ حراست میں لیے گئے بیشتر افراد کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویاں ہیں۔ جن کی زندگی اب اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے بھی مشکلات تھیں۔ تاہم اب ان کو کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
دہلی میں بھی پولیس نے اسی الزام کے تحت متعدد روہنگیا مہاجروں کو یہ کہہ کراپنی تحویل میں لے لیا کہ وہ غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے تمام افراد کو ان کے ملک واپس بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔ میانمار سے جان بچا کر بھارت آنے والے روہنگیا مہاجرین دہلی، حیدرآباد، جموں اور کشمیر سمیت مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔ اور جہاں بھی وہ رہتے ہیں۔ وہاں کے مقامی تھانوں میں بھی ان کی تفصیلات درج ہیں۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق جموں اور سانبہ کے علاقے میں تقریباً پونے چودہ ہزار روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے افراد رہتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے پارلیمان میں ان کے ڈیٹا سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک بھر میں ان کی تعداد تقریبا چالیس ہزار ہے۔ بھارت میں روہنگیا مہاجرین کے پاس روزگارکا کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ سبزی بیچ کر، محنت مزدوری کر کے یا پھر رکشہ چلا کر کسی طرح اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ تاہم وبا کے دوران یہ مواقع بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔