٭…قربانی کے بڑے جانور (مثلاً: گائے، بیل ، بھینس اور اونٹ یا اونٹنی ) میں ایک سے لے کر سات تک حصے کیے جاسکتے ہیں، لیکن سات سے زیادہ حصے کرنا جائز نہیں ہیں، لہٰذا اگر بڑے جانور میں شرکا سات سے کم ہوں یعنی چار یا پانچ ہوں تو کوئی حرج نہیں، چاہیں تو پانچ برابر حصوں میں تقسیم کردیں اور چاہیں تو بعض شرکا کے حصہ بڑھاکر سات حصے پورے کرلیں، مثلاً: پانچ میں سے دو شرکا کے دو ، دو حصے اور باقی تین کا ایک، ایک حصہ مقرر کرلیں، دونوں صورتیں جائز ہیں، لیکن کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم رکھنا جائز نہیں ہے، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ ساتویں حصے سے کم ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک جانور میں سات سے زائد افراد شریک ہوجائیں، مثلاً: ایک بڑے جانور میں آٹھ افراد شریک ہوجائیں تو ہر شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا اور کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، ایک صورت یہ بھی ہے کہ حصے دار تو سات یا سات سے کم ہوں، لیکن کوئی ایک شریک گائے کے ساتویں حصے سے کم یعنی آدھا یا تہائی وغیرہ حصہ لے تب بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
٭…گھر میں پالے ہوئے جانور کے بارے میں یہ نیت کی کہ قربانی کے ایام میں اس جانور کی قربانی کرے گا تو اس نیت سے اس جانور کی قربانی لازم نہیں ہوگی، ایسے جانور کو بدلنا اور فروخت کرنا بھی جائز ہے، یعنی جس کی ملکیت میں پہلے ہی سے جانور ہو تو اس کی قربانی کی نیت کر لینے سے اس کی قربانی لازم نہیں ہوتی۔
٭…جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلانا مستحب ہے۔
٭…اگر مشترکہ حصوں میں سے آپس کی رضامندی سے تقسیم سے پہلے کسی شخص کو کچھ گوشت وغیرہ دے دیا، تو مسئلہ یہ ہے کہ اگر شرکا میں سے کسی نے قربانی کی نذر نہ کی تھی تو جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں تقسیم واجب نہیں اور اگر قربانی کے جانور میں کسی کا نذر اور منت کا حصہ تھا اور مالدار کو گوشت دیا تو جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں گوشت کو تقسیم کرکے نذر کرنے والے کا حصہ فقرا کو صدقہ کرنا واجب ہے۔ خلاصہ یہ کہ قربانی ہوجائے گی، البتہ نذرکرنے والے پر اپنے اس گوشت کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے جو کسی مالدار کو دے دیا گیا ہو۔
٭…جس طرح بھی تکبیر کہہ کر جانور کو ذبح کیا جائے وہ ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے، اگرچہ کھڑے ہوئے جانور پر چھری پھیردی جائے اور اگر ذبح کرنے والا نماز اور روزہ کا پابند نہ ہو، مگر مسلمان ہے اور اس کے ذبح کرنے سے ذبح کرنے والی رگیں کٹ جائیں تو جانور حلال ہے۔ قربانی کے ایک جانور میں جتنے افراد شریک ہوں گے تمام افراد کے لئے جانور کو ذبح کرتے وقت ’’تکبیر‘‘ کہنا ضروری نہیں، صرف ذبح کرنے والے اور اس کے ساتھ چھری پر یا ذبح کرنے والے کے ہاتھ پر وزن رکھنے والوں پر ’’تسمیہ ‘‘ کہنا ضروری ہے، جانور میں حصہ لینے والے یا جانور کے ہاتھ پائوں پکڑنے والوں پر ’’تسمیہ ‘‘ کہنا ضروری نہیں۔
٭…ایک تہائی گوشت صدقہ کردینا مستحب ہے، لیکن عیال دار اور قبیلہ دار شخص کے لئے بہتر یہی ہے کہ صدقہ نہ کرے، اپنے اہل وعیال کے لئے تمام گوشت رہنے دے۔
٭…دسویں ذی الحجہ سے بارہویں ذی الحجہ تک جس طرح دن میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، اسی طرح رات کو بھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے۔موجودہ زمانے میں ہر جگہ تقریباً بجلی ہے، روشنی اتنی زیادہ ہے کہ کسی رگ کٹنے میں کوئی شبہ نہیں رہ سکتا۔
٭…قربانی کے جانور کی رسی صدقہ کردینا مستحب ہے اور اگر فروخت کردی تو اس کی قیمت صدقہ کردینا واجب ہے اور اگر رسی خود استعمال کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر کسی کو ہدیہ میں دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
٭…جس آدمی پر قربانی واجب ہے، اگر وہ قربانی کے لیے رقم کسی اور ملک میں بھیج دے اور کسی کو قربانی کرنے کے لیے کہہ دے، تو اس طرح رقم بھیج کر دوسرے ممالک میں قربانی کرنا درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو یعنی جس دن قربانی کی جائے گی وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔مثلاً سعودی عرب میں پاکستان کے حساب سے ایک دن پہلے قربانی شروع ہوتی ہے اور پاکستان میں سعودی عرب سے ایک دن بعد، تو سعودی عرب میں رہنے والے آدمی کی قربانی پاکستان میں پہلے اور دوسرے دن کرنا صحیح ہوگا تیسرے دن نہیں، کیونکہ پاکستان کا تیسرا دن سعودی عرب کے حساب سے قربانی کا دن نہیں، اس طرح اگر پاکستان میں رہنے والے آدمی کی قربانی سعودی عرب میں کی جارہی ہے تو سعودی عرب کے پہلے دن میں پاکستان کے آدمی کی قربانی کرنا صحیح نہیںہوگا، کیونکہ یہ دن پاکستان کے حساب سے پاکستان میں رہنے والوں کے لئے قربانی کا دن نہیں ہے، لہٰذا دوسرے اور تیسرے دن میں کی جائے۔