٭…بڑے جانور میں عقیقہ کی نیت سے متعدد افراد شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام شرکا کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو۔ بڑے جانور میں بعض شرکا قربانی کی نیت سے اور بعض عقیقہ کی نیت سے شریک ہو سکتے ہیں۔ عقیقہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں حصہ لینے سے کسی کی قربانی باطل نہیں ہوگی۔
٭…قربانی کیلیے جانور خریدتے وقت عام طور پر جانور کے دانت دیکھنے کا رواج ہے، اگر کیرا ہے تو نہیں لیتے اور اگر کیرا نہیں ہے تو لیتے ہیں، حالانکہ شریعت میں عمر کا اعتبار ہے، دانت کا اعتبار نہیں ہے، البتہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ قربانی کیلئے جانوروں کی عمریں متعین ہیں، چونکہ اکثر حالات میں جانوروں کی صحیح عمر معلوم نہیں ہوتی، اس لیے ان کے دانتوں کو عمر معلوم کرنے کا اور اس پر عمل کرنے کا احتیاطاً حکم دیا گیا ہے۔ دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا ہے، وہاں زیادہ عمر کے جانور کا آجانا ممکن ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، پس اگر کسی شخص کے گھر کا بکرا یکم ذی الحجہ کو پیدا ہوا اور اسی کے گھر میں پرورش پاتا رہا تو آئندہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو وہ ایک سال نو دن کا ہوگا، اب اگر اس کے پکے دانت نہ نکلے ہوں تب بھی وہ اس کی قربانی کر سکتا ہے، کیونکہ اس کی عمر یقینا ایک سال کی پوری ہو کر آٹھ نو دن زائد ہو چکی ہے، لیکن اس سے یہ حکم نہیں دیا جا سکتا کہ بے دانت ہر بکرا قربانی کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کی عمر ایک سال ہونے کا یقین ہو یا نہ ہو۔ (کفایت المفتی: ج: 8 ص217 ط: دارالاشاعت)
٭…اگر عاقل بالغ مقیم عورت صاحب نصاب ہے، یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنی چیزیں ہیں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو ایسی عورت پر قربانی واجب ہے۔
٭…مسلمان عورتوں کا ذبح کیا ہوا جانور بلاشبہ حلال ہے، اس کا گوشت کھانا جائز ہے، البتہ چونکہ عورتیں اس کام کو کم جانتی ہیں اور دل کمزور ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہ چلنے کا احتمال ہے، اس لئے بلا ضرورت ذبح کا کام عورتوں کے سپرد کرنا مناسب نہیں۔
٭…اگر کسی مالدار صاحب نصاب آدمی نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدا، پھر وہ جانور عیب دار ہوگیا تو صاحب نصاب آدمی پر ضروری ہوگا کہ عیب دار جانور کی جگہ پر کسی بے عیب جانور کی قربانی کرے۔ اگر کسی غریب آدمی نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدا، پھر وہ جانور عیب دار ہوگیا تو فقیر آدمی وہی عیب دار جانور قربانی کرے کافی ہے، غریب کیلئے اس کی جگہ دوسرا جانور لیکر قربانی کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کسی نے قربانی کے لئے بے عیب جانور خریدا تھا مگر بعد میں کوئی ایسا عیب و نقص پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو تو اگر قربانی منت و نذر کی ہو تو اس کی جگہ بے عیب جانور کی قربانی ضروری ہے، خواہ وہ شخص امیر ہو یا غریب، اور اگر قربانی نذر و منت کی نہ ہو تو غریب کیلئے اس عیب دار جانور کی قربانی کردینا کافی ہے اور امیر پر اس کی جگہ دوسرے بے عیب جانور کی قربانی کرنا ضروری ہے۔ اگر ذبح کی تیاری میں کوئی عیب پیدا ہوگیا، مثلا ٹانگ ٹوٹی، یا آنکھ خراب ہوگئی تو کوئی حرج نہیں، اس کی قربانی صحیح ہے۔
٭…شہروں میں جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی کے جانور کو ذبح کرنا درست نہیں، اگر کسی نے ایسا کیا تو قربانی دوبارہ کرنی لازم ہوگی، البتہ گائوں جہاں پر عید کی نماز نہیں ہوتی ذبح کر سکتے ہیں۔
٭…نبی کریمؐ نے عید کی نماز کو مقدم کیا اور قربانی کو اس کے بعد کرنے کا حکم جاری فرمایا خواہ وہ مکہ میں ہو یا مدینہ میں یا دنیا کے کسی مقام میں۔
٭…جو بکرا گزشتہ سال عید کے روز پیدا ہوا ہے اس کی قربانی امسال عید کے دوسرے دن کرنا جائز ہے، کیونکہ سال پورا ہو چکا ہے۔
٭…کسی غریب نے جس پر قربانی واجب نہیں تھی، محض اپنی خوشی سے قربانی کردے، اور اس کے بعد قربانی کے ایام میں ہی وہ صاحب نصاب امیر بن گیا تو اب اس پر دوسری قربانی کرنا واجب ہے۔
٭…اگر کسی غریب آدمی کو ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کہیں سے مال دستیاب ہوگیا اور وہ صاحب نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔
٭…اگر غریب آدمی نے قربانی کی نیت سے جانور خریدلیا تو اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہوگی۔
٭… اگر کوئی شخص غریب ہے، اس پر قربانی واجب نہیں ہے اوراس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدلیا ہے، تو اس جانور کی قربانی اس پر واجب ہو جائے گی۔ لیکن اگراس کا یہ جانور مرگیا تو یہ واجب ساقط ہو جائے گا۔ اس پر دوسری قربانی واجب نہیں ہوگی۔ اوراگرغریب آدمی نے پہلا جانور گم ہونے کے بعد دوسرا جانور خرید لیا پھر پہلا بھی مل گیا تو اس پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہوگا، کیونکہ غریب آدمی قربانی کی نیت سے جتنے جانور خریدتا جائے گا سب کی قربانی واجب ہوتی جائے گی۔