فریقین کے اعلی مذاکرات کاروں نے دونوں فریقوں سے صبر وتحمل اور ذاتی مفادات کو نظرانداز کرنے کی اپیل کی۔فائل فوٹو
فریقین کے اعلی مذاکرات کاروں نے دونوں فریقوں سے صبر وتحمل اور ذاتی مفادات کو نظرانداز کرنے کی اپیل کی۔فائل فوٹو

غیر ملکی نظریات سے ہمیں کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔طالبان

قطر کی میزبانی میں افغانستان میں قیام امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ختم ہو گیا۔مذاکرات میں افغانستان میں صلح کی اعلی کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کی قیادت میں کئی اہم جماعتوں کے سربراہوں شرکت کی جبکہ طالبان کے وفد کی قیادت، نائب سربراہ ملا عبد الغنی برادر کر رہے تھے۔ امن مذاکرات میں افغانستان کے امور میں امریکہ کے نمائندے زلمی خلیل زاد بھی موجود تھے۔

تفصیلات کے مطابق افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اجلاس میں شرکت کرنے کا فیصلہ تبدیل کرلیا تھا جبکہ سرکاری وفد میں خاتون اراکین کی موجودگی قابل توجہ رہی۔فریقین کے اعلی مذاکرات کاروں نے دونوں فریقوں سے صبر وتحمل اور ذاتی مفادات کو نظرانداز کرنے کی اپیل کی۔

اجلاس کے دوران طالبان کے وفد کے سربراہ ملا برادر نے زور دیا ہے کہ ایک مضبوط ، خود مختار اور مرکزی اسلامی نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے، یہ لازم ہے کہ ہمارے پاس ہمارے دین ، قومی عزت و مفادات کے تحت ایک نظام ہو اورغیر ملکی نظریات سے ہمیں ماضی میں فائدہ ہوا ہے نہ مستقبل میں کوئی فائدہ ملنے والا ہے۔

عبد اللہ عبد اللہ نے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ افغانستان میں قتل وغارت گری و تشدد کا سد باب ضروری ہے اور اس کی راہ حل پر امن مذاکرات ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات کا آغاز ستمبر 2020 میں ہوا تھا تاہم ابھی تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو پائی۔