ضیاء چترالی:
کورونا وبا کی وجہ سے مسلسل 2 برسوں سے حج و عمرہ تقریباً تعطل کا شکار ہیں۔ اس فیصلے پر سعودی حکومت جہاں ایک طرف بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے، وہیں بیرونی زائرین سے ہونے والی آمدنی سے بھی محروم ہے۔ جس سے اس کی دبائو کا شکار معیشت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حج و عمرہ تیل کے بعد سعودیہ کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ سعودی معیشت کو حجاج سے سالانہ 12 ارب ڈالر سے زائد براہ راست اور 23 ارب ڈالر سے زائد بالواسطہ فائدہ ہوتا ہے۔ اب 2 سال سے حج محدود کرنے کے باعث سعودی معیشت کو مجموعی طور پر 70 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہ رقم مقامی کرنسی میں 262.57 ارب ریال بنتی ہے۔ یہ نقصان بھی ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب کورونا کے باعث تیل قیمتوں میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب ہر سال مذہبی سیاحت و زیارت سے اربوں ریال کا زر مبادلہ کماتا ہے اور بڑی تعداد میں زائرین و حجاج کی آمد سے ان کو بڑی آمدنی حاصل ہوتی ہے، تیل کی درآمد کے بعد حج وعمرہ سعودیہ کا دوسرا بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ گزشتہ برس صرف دس ہزار اور امسال ساٹھ ہزار افراد کو حج کی اجازت دی گئی۔
سعودی سیاحتی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ولی عہد کے ویژن 2030ء کے مطابق سعودی اقتصاد کو تیل پر انحصار سے نکالنا تھا، تاہم کورونا اور تیل کی گرتی قیمت کے ساتھ حج کی محدودیت نے اس پروگرام کو شدید متاثر کیا ہے۔ سعودیہ کو توقع تھی کہ وہ سال 2030ء تک 6 ملین غیر سیاح اور 30 ملین زائرین کی میزبانی کرے گا، جس سے انہیں 50 ارب ڈالر سے زائد آمدنی حاصل ہوگی۔ حجاج پر پابندی سے کم از کم 2 لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں، جو مختلف ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ، سیکیورٹی سروسز اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔
چمیبر آف کامرس میں امور حج کے نمائندے محمد سعد القرشی کا کہنا ہے کہ صرف مکہ میں 300 ٹرانسپورٹ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ جو حجاج و معتمرین کو خدمات فراہم کرنے پر مامور ہیں۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ہر سال حج سے دیگر فوائد کے علاوہ سعودی کو سیاسی و مذہبی حوالے سے خاص حیثیت مل جاتا ہے، جبکہ اربوں ڈالر آمدنی اپنی جگہ۔ سعودی عرب نے متاثر افراد اور کمپنیوں کی مدد کے لیے مختلف کاوشیں کی ہیں، تاکہ کورونا بحران سے متاثرہ ان کمپنیوں کے نقصانات کو کم کرسکے، جن میں سالانہ ٹیکسز میں کمی اور مالی قرضوں کی واپسی میں مدت کو بڑھانا شامل ہے۔ سعودی عرب نے کورونا سے متاثر اقتصاد کو سہارا دینے کے لیے ٹیکسوں میں 3 گنا اضافہ کیا گیا ہے، سعودی میڈیا کے مطابق ٹیکسوں میں 5 سے 15 فیصد مزید اضافہ ہو چکا ہے اور شہریوں کو دیا جانے والا الاؤنس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ شہریوں کو ملنے والی رقم ہزار ریال یا دو سو سڑسٹھ ڈالر ہے، جو قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایک مدد کے طور پر دیا جاتا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق حج نہ ہونے سے گزشتہ برس سعودیہ کی کل قومی پیداوار چھ اعشاریہ آٹھ فی صد کم ہوگئی۔ واضح رہے کہ کورونا سے پہلے سالانہ 25 لاکھ غیرملکی حج کیلئے سعودیہ آتے تھے۔ حج کرنے والے مقامی افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ سعودی عرب نے حجاج کی تعداد کو قابو میں رکھنے کے لیے ہر ملک کا ایک کوٹا طے کر رکھا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں سعودی عرب کے اندر سے حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد دوسرے ممالک سے آنے والے حجاج کرام کے مقابلے میں تقریباً نصف رہی ہے۔ اس حساب سے سالانہ 40 لاکھ کے زائد افراد حج کرنے مکہ آتے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کی جتنی آبادی ہے، اس کی محض 2 فیصد آبادی سعودی عرب میں رہتی ہے۔ البتہ عمرے کا سلسلہ پورا سال جاری رہتا ہے۔ کورونا سے قبل عمرہ زائرین کی سالانہ تعداد 60 سے 70 لاکھ تک ہوتی تھی۔ سعودی عرب جانے والے مسلمانوں میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ وہاں عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ سات سال پہلے عمرہ کے لیے جانے والوں کی تعداد 40 لاکھ تھی۔ سعودی حکومت حرم شریف کی توسیع کے بعد عمرہ زائرین کی سالانہ تعداد سوا کروڑ تک لے جانا چاہتی ہے۔ حج وعمرہ زائرین جو پیسے وہاں خرچ کرتے ہیں، وہ ان کی معیشت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ تمام رقم سعودی عرب کی براہِ راست آمدنی نہیں ہے، لیکن اس سے ان کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملتا ہے۔
مکہ چیمبر اور کامرس کے اندازوں کے مطابق بیرون ملک سے آنے والے مسلمانوں کو حج پر 4600 ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں، جبکہ سعودی عرب کے حجاج کرام کے حج پر 1500 ڈالر لگتے ہیں۔ مختلف ممالک کے لوگوں کے لیے حج کا خرچ مختلف ہوتا ہے۔ ایران سے آنے والے قافلے میں ہر ایک شخص کو یہ خرچ 3000 ڈالر کے قریب پڑتا ہے۔ اس میں سفر، کھانے پینے اور خریداری کا بجٹ شامل ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو بھی تقریباً اتنا ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ انڈونیشیا کا کوٹا سب سے زیادہ ہے۔ یہاں سے ہر سال ڈھائی لاکھ افراد حج کے لیے سعودی عرب جا سکتے ہیں، جو حجاج کرام کا 14 فیصد ہے۔ اس کے بعد پاکستان 11 فیصد، بھارت 11 فیصد اور بنگلہ دیش کا کوٹا 8 فیصد ہے۔ اس فہرست میں نائیجیریا، ایران، ترکی، مصر جیسے ملک بھی شامل ہیں۔
سروے کے مطابق زائرین کے اخراجات کا 40 فیصد رہائش پر، جبکہ 31 فیصد خرچہ آمد و رفت پر صرف ہوتا ہے۔ 10 فیصد اخراجات خوراک اور 5 فیصد دیگر امور پر صرف کیا جاتا ہے، جبکہ قربانی اور شاپنگ وغیرہ سے سعودی معیشت کو خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ عام حالات میں سعودی عرب کو حج سے تقریباً 12 ارب ڈالرز براہ راست حاصل ہوتے تھے، یعنی اس کی کل قومی پیداوار کا 7 فی صد۔ نجی شعبے کی آمدنی اس کے علاوہ ہوتی تھی، جو 25 سے 30 فیصد کے قریب بنتی تھی۔ وہ بالواسطہ سعودی معیشت کا حصہ بنتا تھا۔لیکن گزشتہ اور رواں برس ایک تو غیر ملکی حجاج کو اجازت نہیں دی گئی۔ پھر جن محدود مقامی لوگوں کو اجازت دی گئی، انہیں بھی سخت پابندیوں کے ساتھ حج کرایا گیا۔ کورونا ایس اوپیزکے تحت جو انتظامات کیے گئے تھے، ان کے اخراجات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو سعودی حکومت کو حجاج کرام سے آمدنی کے بجائے الٹا ان پر خرچ کرنا پڑا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بعض حلقوں کی تنقید اور اربوں ڈالر کے نقصان کے باوجود سعودی حکومت نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس کے جواب میں سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی کو مسلمانوں کی عقیدت کے مراکز پر انگلی اٹھانے کا بھی موقع مل جائے۔ اگر حج کی عام اجازت دی جاتی اور خدانخواستہ ایک حاجی کو بھی کورونا ہوجاتا تو اسلام دشمن عناصر کو تنقید کا موقع مل جاتا۔ اس لئے سعودیہ نے بھاری معاشی نقصان تو برداشت کرلیا، لیکن کسی کو تنقید کا موقع نہیں دیا۔