طالبان مجاہدین نے افغانستان میں جبراً کوئی قانون مسلط نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا کمیشن کے سربراہ اور سابق وزیر اطلاعات ملا امیر خان متقی نے امت کو بتایا کہ افغان طالبان نے شمالی افغانستان میں مساجد سے اعلان کیا ہے اور اس حوالے سے بل بورڈ بھی نصب کئے ہیں کہ کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور جو بھی اپنا طرز زندگی جیسے گزارنا چاہتا ہے اجازت ہوگی۔
طالبان مجاہدین کسی دکاندار ،تاجر سمیت تعلیمی اداروں اور تمام سرکاری ملازمین کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھیں گے۔ مجاہدین نے سرکاری ملازمین کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
اس حوالے سے امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ قندوز بھی طالبان مجاہدین کے کنٹرول میں آنے والا ہے اور طالبان مجاہدین کسی پر کوئی قانون جبراً مسلط نہیں کریں گے ۔طالبان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے لیکن اب عوام کو یہ سمجھ آ گئی ہے کہ طالبان نے نہ تو میوزک پر پابندی لگائی ہے نہ ہی داڑھی کاٹنے پر پابندی لگائی ہے اور نہ ہی عورتوں کو بازار جانے سے منع کیا ہے۔
لہذا طالبان مجاہدین کی تبدیلی کو افغان عوام پہلی بار محسوس کر رہے ہیں امیر خان متقی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ طالبان مجاہدین سے عام لوگوں میں تشویش تھی لیکن اب زیر کنٹرول علاقوں میں طالبان مجاہدین کی جانب سے کوئی سختی نہ کرنے پر عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے، تجارت اپنے روزمرہ کے تحت جاری ہے۔
شبر غان پر قبضے کے بعد مزار شریف بھی طالبان کے نشانے پر آگیا ہے اور طالبان نے مزار شریف کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کیا ہے ۔ طالبان مجاہدین کے تجارت اور صنعت کے کمیشن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جس کو بھی تجارت کے حوالے سے شکایت ہو وہ فوری طور پر کمیشن سے رابطہ کرے ۔طالبان نے یہ کمیشن دو روز قبل قائم کیا ہے ۔