’’کرشماتی درخت‘‘ کی چھال- پتوں- پھولوں اور پھلیوں کو قدرت نے بیش بہا طبّی فوائد عطا کیے ہیں-فائل فوٹو 
’’کرشماتی درخت‘‘ کی چھال- پتوں- پھولوں اور پھلیوں کو قدرت نے بیش بہا طبّی فوائد عطا کیے ہیں-فائل فوٹو 

سوہانجنا کا درخت صحت کا خزانہ۔ 300 بیماریوں کا کرشماتی علاج

سوہانجنا کے درخت کو اقوام عالم میں ’’مورنگا‘‘ کے نام سے بھی جانا پہچانا جاتا ہے۔ سوہانجنا، غذائیت سے بھرپورایک ایسا درخت ہے جس کی پتیاں، پھلی، گوند اور پھول سبھی نوع انسانی کیلیے قدرت کا بیش بہا تحفہ ہے۔ سوہانجنا کا درخت اونچا اور پتے کسی حد تک املی کی شکل کے ہوتے ہیں۔ اس درخت پر چھوٹے اور سفید پھول لگے ہوتے ہیں اور سبز رنگ کی لمبی لمبی پھلیاں نکلتی ہیں۔ مقامی موسم اور پانی کی مقدار کے لحاظ سے، سوہانجنا پر جنوری سے اپریل تک پھول کھلتے ہیں۔ یہ پھول چند دنوں میں پھلیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور دو ماہ تک پھلیاں تازہ حالت میں درخت پر موجود رہتی ہیں۔

’’افریقا‘‘ نیوز پورٹل کا کہنا ہے کہ پورے افریقا میں سوہانجنا کے درخت کو بیحد اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ درخت پاکستان میں جنوبی پنجاب میں جا بجا ملتا ہے۔ اس کی طبی و غذائی اور ادویاتی افادیت مسلم ہونے کے باوجود پاکستان میں اس سے کوئی خاص فوائد نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ لیکن افریقا سے لے کر یورپ اور امریکا تک سوہانجنا کا نام گونج رہا ہے۔

فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد بسرا کا کہنا ہے کہ سوہانجنا کا اصل وطن جنوبی پنجاب ہے، جہاں سے یہ برصغیر کے دیگر حصوں سے لے کر جنوبی افریقا تک جا پہنچا۔ افریقا میں اس کو ’’کرشماتی درخت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پچاس برس قبل تک پاکستان میں اس افادیت بھرے درخت کی کم و بیش 13 اقسام موجود تھیں۔ لیکن اب صرف دو ہی اقسام موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درخت خودرو بھی ہے۔ جب اس کے بیجوں کو موافق موسم اور سازگار فضا ملتی ہے تو یہ خود بخود بھی اُگ جاتا ہے۔ اس وقت سوہانجنا کی سب سے اہم قسم ’’مورنگا اولی فیرا‘‘ کہلائی جاتی ہے۔ جس کوغذائی اور طبی اعتبار سے تمام اقسام پر فوقیت حاصل ہے۔ سوہانجنا کا درخت قحط سالی میں سب سے پہلے سینگال میں بیس بائیس برس قبل بطور غذا کامیابی سے استعمال جاچکا ہے۔

متعدد ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ سوہانجنا کے تخم اپنے اندر جراثیم کش خاصیت بھی رکھتے ہیں، جس کے 90 فیصد مثبت نتائج حاصل ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں چکن گونیا کے مریضوں کیلئے سوہانجنا کی افادیت بھی ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے اس کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ شہید حکیم محمد سعید کی زیر صدارت ایک عرصہ تک شائع ہونے والے معروف طبی جریدے ’’ہمدرد صحت‘‘ کے ایک تحقیقی مضمون سے علم ہوا ہے کہ سوہانجنا کی پھلی میں دودھ کے مقابلے میں 17 گنا زیادہ کیلشیم موجود ہوتا ہے۔ یہی پھلیاں دہی سے 9 گنا زیادہ پروٹین اپنے اندر رکھتی ہیں۔ گاجر سے 4 گنا زیادہ وٹامن اے کا ذخیرہ چھپائے ہوئے ہیں۔ جب کہ بادام سے 12 فیصد زیادہ وٹامن ای انسان کو دیتی ہیں اور کیلے سے 15 گنا زیادہ پوٹاشیم اور پالک سے 19 گنا زیادہ فولاد ان پھلیوں میں موجود ہوتا ہے۔

افریقی طبیبوں سمیت قدیم چینی اطبا کا کہنا ہے کہ سوہانجنا کے پتوں کو مختلف ممالک میں بطور غذا اور فوڈ سپلیمنٹ استعمال کیا جا رہا ہے اور مغربی یورپی میں تو کمپنیاں اس کے عرق سے گولیاں اور فوڈ سپلیمنٹ بناکر فروخت کررہی ہیں اور کروڑوں ڈالر کا نفع ہر سال کما رہی ہیں۔ کئی طبی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ سوہانجنا گندم، چاول، سرخ گوشت، مرغی اور دودھ، دہی کی جگہ نہیں چھین سکتا۔ لیکن سوہانجنا میں موجود قدرتی غذائی و قیمتی اجزاسے انسانی جسم کی توانائی بحال رکھی جاسکتی ہے اور مختلف بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ غذائی قلت کی شکار خواتین اورمرد اگر باقاعدگی کے ساتھ سوہانجنا کا استعمال کریں تو ان کی جسمانی کمزوری جلد دور ہوجانے کا سو فیصد امکان ہے۔ اس کے پتوں کا 50 گرام سفوف دن بھر کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے کافی ہے۔ یعنی اتنی مقدارمیں اس کے استعمال کنندہ کو توانائی یا کیلوریز مل جاتی ہیں۔

روایتی افریقی طبیب گینان مرگوندا نے بتایا ہے کہ قدرت نے سوہانجنا کو ہر اعتبار سے انسانوں کیلئے دوا اور غذا بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک غریب افریقی جو مہنگے پھل، سبزیوں اور گوشت کی خریداری کا متحمل نہیں ہو سکتا وہ سوہانجنا سے اپنی غذائی ضروریات پورا کرسکتا ہے۔ علم نباتات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مورنگا کا درخت دو سے تین سال میں پھل اور بیجوں کا پیداواری سرکل شروع کردیتا ہے۔ ایک جوان سوہانجنا درخت سے ایک سیزن میں کم و بیش تین سے چارکلوگرام بیجوں کا تحفہ دیتا ہے۔

یاد رہے کہ ایک کلو گرام بیج سے ایک پائو تیل حاصل ہوتا ہے۔ سوہانجنا کے بیجوں میں40 فیصد تیل موجود ہوتا ہے جو معیار اور طبی و غذائی افادیت کے لحاظ سے زیتون کے تیل کے مساوی ہوتا ہے۔ یہ تیل نہ صرف فوڈ سپلیمنٹ ہے، بلکہ مختلف کاسمیٹکس اشیا کی تیاری اور جلدی امراض کے علاج میں کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکیموں کے مطابق سوہانجنا، پیشاب آور ہے اور ہاضم ہونے کی وجہ سے اس کی جڑ کا پانی دودھ میں ملا کر پلایا جاتا ہے۔ سوہانجنا کی پھلیاں اندرونی ورم، ورم تلی، ضعف اشتہا، دمہ اور نقرس میں فائدہ کرتی ہیں۔ یہ امراض گردہ میں مفید ہے اور مثانہ کی پتھری کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔ سوہانجنا کی جڑ کے جوشاندے سے گلے کی سوزش دور ہوتی ہے۔ سوہانجنا کی پکی ہوئی پھلیوں کا اچار سرکہ میں ملا کر استعمال کرنے سے جوڑوں کے درد، کمر درد اور فالج سمیت لقوہ کا علاج کیا جاتا ہے۔

امریکا میں سوہانجنا کی پتیوں کا ایک پونڈ خشک پائوڈرکم و بیش پچیس سے تیس ڈالر میں دستیاب ہے۔ سوہانجنا کا استعمال شوگر کے مرض میں مبتلا مریضوں کیلیے بھی خوشیوں اور صحت کا پیغام ہے۔ سوہانجنا کی خشک پتیوں کا قہوہ ذہنی دباؤ میں سکون بخشتا ہے اور بھرپور نیند لاتا ہے۔ یہ قبض کے مریضوں کیلئے مفید سمجھا جاتا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کو سوہانجنا کے اجزا سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سوہانجنا، دوا اور غذا کے طور پر بھی کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، فائبر-وٹامنز اور منرل سے بھرپورسپلیمنٹ کہلاتا ہے۔ سوہانجنا کی پھلیاں گردوں اورآنکھوں کیلیے بیحد مفید ہیں۔ جسم کی سوجن، ورم، تیزابیت، جلدی امراض اور ہڈیوں کی کمزوری کیلیے بھی یہ کافی مفید ہے۔ ہر عمر کے افراد سوہانجنا کے استعمال سے اپنی توانائی بحال رکھ سکتے ہیں۔
(مندرجہ بالا رپورٹ قارئین کے فائدے کیلیے شائع کی گئی ہے تاہم سوہانجنا کے اجزا کو استعمال کرنے سے پہلے مقدار یومیہ خوراکوں کے بارے میں طبیبوں سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ ادارہ ’’امت‘‘)