امت رپورٹ:
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی دفتر باچا خان مرکز میں موسیقی سکھانے کا پروگرام شروع کر دیا گیا ہے۔ ’’انگازی‘‘ کے نام سے پروڈکشن بھی شروع کر دی گئی ہے۔ جس میں معروف گلوکار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کلاسز دے رہے ہیں۔ یہ کلاسز اے این پی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کیلیے ہیں تاہم اب افغانستان سے آنے والے تقریباً دو سو گلوکار جن کو شدید مسائل کا سامنا ہے، کیلئے بھی باچاخان مرکز میں انتظامات کیے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایمل ولی خان کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ جلد موسیقی سکھانے کا پروگرام شروع کریں گے۔ جس کے بعد اے این پی پر شدید تنقید کی گئی تھی اوراے این پی کے اندر بھی کئی گروپ بن گئے تھے۔ لیکن ایمل ولی خان نے نہ صرف اپنے اعلان پر عمل کیا بلکہ باچا خان مرکز کو موسیقی پروگرام کیلیے استعمال کیا جا رہا ہے جس پر پارٹی میں سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بننے والے باچا خان مرکز میں موسیقی کو فروغ دینے کیلئے انگازی پروڈکشن نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ جبکہ اسٹوڈیو بھی بنایا گیا ہے اور طبلہ، باجا، رباب اور موسیقی کے دیگر آلات بھی موجود ہیں۔ انگازی پروڈکشن سے گانے بھی ریلیز کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ دیگر اضلاع میں بھی موسیقی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے شروع کیے گئے انگازی پروڈکشن کے حوالے سے عوام کی رائے منقسم ہے۔ باچاخان ٹرسٹ کے ذرائع کے مطابق غیر معیاری موسیقی کی وجہ سے پشتو ثقافت اور موسیقی کی دنیا کو نقصان پہنچا ہے اور اس وقت پشتو گلوکاروں کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں۔ ٹرسٹ نے ان کو مفت پلیٹ فارم دیا ہے۔ باچاخان مرکز میں معیاری گانے ریکارڈ کیے جائیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ اے این پی کو اس وقت ایک طرف نیشنل ڈیمو کریٹک مومنٹ (این ڈی ایم) جو محسن داوڑ اور اے این پی کے سابق رہنمائوں نے بنائی ہے، کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہے۔ کیونکہ نوجوان طبقے کو این ڈی ایم کی پالیسی زیادہ جارحانہ نظر آرہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پی ٹی ایم میں بھی لوگ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم افغانستان میں موجودہ صورتحال میں اے این پی سے جو امیدیں افغان نوجوانوں کو وابستہ تھیں، وہ پوری نہیں ہو رہیں۔ کیونکہ افغانستان سے آنے والے فنکار در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اے این پی انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ جبکہ محسن داوڑ کے پارٹی بنانے کی وجہ سے پی ٹی ایم بھی مشکل کا شکار ہے اور نوجوان مایوس ہورہے ہیں۔ وہ نوجوان جو اے این پی سے پی ٹی ایم کی طرف چلے گئے تھے، مزید پریشانی کا شکار ہیں۔ کیونکہ وہ نہ اے این پی کی طرف آنا چاہتے ہیں اور نہ ہی محسن داوڑ کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے بقول پی ٹی ایم ایک غیر سیاسی تنظیم تھی اور وہ نوجوانوں میں مقبول ہور ہی تھی۔ تاہم افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد بعض شدت پسند تنظیموں کے قبائلی علاقوں میں مذاکرات اور شدت پسندی چھوڑنے کے اعلانات سے بھی پی ٹی ایم پریشانی کا شکار ہے۔ جبکہ اے این پی کی جانب سے موسیقی کا پروگرام شروع کرنے اور اسٹوڈیو بنانے کے بعد پارٹی کے پرانے خدائی خدمتگار انتہائی سخت ناراض ہیں۔ اس حوالے سے مردان اور صوابی میں اے این پی کے رہنمائوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے کہ ایمل ولی خان کی جانب سے آئندہ بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات کیلئے امیدواروں کی تربیت اور رہنمائی کے بجائے موسیقی کی طرف توجہ دی جا رہی ہے اور اس سے اے این پی کو انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اے این پی کے موجودہ صوبائی صدر پارٹی کو جس طرف لے جانا چاہتے ہیں، اس سے مزید مشکلات بڑھیں گی۔ کیونکہ اس وقت پختونوں کے ناراض نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے اور یہ پلیٹ فارم کوئی بھی پارٹی مہیا نہیں کر رہی ہے۔ پی ٹی ایم سے جو امیدیں تھیں، وہ بھی ختم ہو گئیں۔ اور پی ٹی ایم تقسیم ہو گئی۔ جبکہ محسن داوڑ کی طرف نوجوانوں کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی بنیادی وجہ محسن داوڑ کے پاکستان ریاست مخالفت بیانات ہیں۔