کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سیاسی پارہ عروج پر پہنچ گیا،4افراد کے لاپتہ ہونے کے بعد بی اے پی اوراپوزیشن اراکین نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی رہائش گاہ پر پناہ لے لی۔
تحریک عدم اعتماد کے حامی 35 اراکین نے اسپیکرکی رہائش گا ہ پر رات گزاری۔ ظہور بلیدی کا کہنا ہے کہ 4 اراکین تاحال غائب ہیں جن سے رابطہ نہیں ہو پا رہا، خدشہ ہے مزید ساتھیوں پر دباؤ کے حربے استعمال کیے جائیں گے۔
ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے جس پر رائے شماری 25 اکتوبر کو ہوگی۔
بحث مباحثے کے بعد اسپکر نے اجلاس کی کارروائی 25 اکتوبرتک ملتوی کی۔25 اکتوبر کو جب صبح 11 بجے اجلاس شروع ہوگا تو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوگی۔
بلوچستان اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ہوا، بی اے پی کے ناراض رکن عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی، تحریک پیش کرنے کی قرارداد کی 33 ارکان نے تائید کردی۔ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر نے جام حکومت پر اپنے پانچ ساتھیوں کو لاپتہ کرنے کا الزام لگا دیا۔ بازیابی تک احتجاج کی دھمکی بھی دے دی۔
حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی رہنما اصغر خان اچکزئی نے استفسار کیا کہ جب وفاق میں کوئی ہلچل ہوتی ہے تو اس سے قبل بلوچستان میں سیاسی حوالے سے عدم استحکام کیوں پیدا کیا جاتا ہے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے اپنے خلاف الزامات کو مسترد کیا۔انھوں نے کہا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ اگررائے شماری پر ان کو ایوان کی اکثریت حاصل نہیں رہی تو وہ وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں گے۔