کراچی:تھرکے ہسپتالوں کی حالت زار پر چیف جسٹس پاکستان سیکریٹری صحت سندھ پر برہم ہو گئے ، ریمارکس دیے کہ تھر میں آپ کی اولاد نہیں ، والدین نہیں اس لیے آپ کو فکر ہی نہیں ، وہاں چھوٹے بچے مر رہے ہیں ۔
سپریم کورٹ رجسٹری کراچی میں دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ تھر میں دس ، پندرہ ہزار کا صحت کا عملہ ہوگا مگر کوئی نظر نہیں آتا ، تھر سے تو مکمل لاتعلقی ہے ،
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے وی آئی پیز جاتے ہیں ان کچھ اور طریقہ کار ہوتا ہے ، غریبوں کا برا حال کردیتے ہیں، انجکشن لے آؤ ،دوا لے آؤ ، تھر پارکرکے اسپتال میں بیٹھنے کی جگہ تک نہیں ، ایس آئی یو ٹی دیکھیں جاکر کیسے کام ہوتا ہے ، آپ کے منسٹرز تو آغا خان سے علاج کراتے ہیں انہیں کیا پرواہ ،آپ کے ہسپتال تو اصطبل بنے ہوئے ہیں ،گھوڑے ہوتے ہیں وہاں۔
سیکریٹری صحت سندھ نے عدالت کو بتایا کہ نئے ڈاکٹرز کی بھرتیوں کا عمل جاری ہے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کی ہر رپورٹ میں یو این ، یو این لکھا ہے ، آپ کیا کررہے ہیں ؟ ہر جگہ لکھ دیا یو این نے کہا ہے ، یو این سے پیسے لیتے ہیں تو ان ہی کی بات کریں گے ۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ تھر میں 2018 میں 400 بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں ، کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کچھ نہیں ہورہا ۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری لیول کے جتنے افسران ہیں سب مٹھی سول اسپتال جائیں علاج کیلیے ، چار پانچ گھنٹے لگیں گے کوئی بچ جائے تو بچ جائے، آپ لوگ انہیں انسان نہیں سمجھتے ؟ ، لاڑکانہ ، سکھر کسی بھی شہر میں چلے جائیں سرکاری ہسپتالوں کا یہی حال ہے ، آپ کو پرواہ نہیں بچے مررہے ہیں ؟، ہزاروں ، لاکھوں لیڈی ہیلتھ ورکرز رکھی ہیں کہاں ہیں ؟، اتنی بڑی فوج بنائی ہوئی ہے ہیلتھ کی کہاں ہے ؟۔
عدالت نے سیکریٹری صحت کو بولنے سے روک دیا ، چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ ہمارے پاس آکر سب کہتے ہومگر کرتے کچھ نہیں ہیں،ہسپتالوں میں گدھے بندھے ہوئے،لائٹ تک نہیں ہے دوائی،ایکسرے مشین وغیرہ کی سہولیات تو خواب ہیں،ایکسرے مشین ہی نہیں مگر عملہ رکھا ہوا،ایڈووکیٹ جنرل سندھ گئے تھے ، یہ سب چیزوں کے گواہ ہیں،وہاں ڈی سی اور دیگر لوگ تو بادشاہ بنے ہوئے ہیں ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ تھر میں میڈیکل افسران کی 75 فیصد اسامیاں خالی ہیں ،عدالت نے سیکریٹری صحت سندھ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی ۔