چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک کا قومی مفاد سے کیا تعلق ؟،کے الیکٹرک لوگوں کو بلیک میل کرکے چلائی جارہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پی ای سی ایچ ایس میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وکیل پی ای سی ایچ ایس نے بتایا کہ کے الیکٹرک کو معمولی قیمت پر زمین دی۔
عدالت نے پی ای سی ایچ ایس کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ محمود آباد میں گرین بیلٹ کی جگہ تھی وہ بھی کے ای ایس سی کو دے دی ، کے الیکٹرک تو مہنگی زمین بھی خرید سکتی ہے اسے رفاہی پلاٹ دے دیا۔
چیف جسٹس نے وکیل کے الیکٹرک سے کہا کہ کے الیکٹرک بجلی کی معمولی قیمت لیتی ہے ؟؟ وہ صرف پیسہ بنا رہے ہیں ، کے الیکٹرک کا قومی مفاد سے کیا تعلق ؟ آپ کو گرین بیلٹ سے گرڈ اسٹیشن ہٹانا پڑے گا ، آپ جتنے گرڈ اسٹیشن بنا دیں ، پورے شہر میں لوڈ شیڈنگ ہے ، لوگوں کو دو تین گھنٹے ہی بجلی ملتی ہے کیا سروس دے رہے ہیں آپ لوگوں کو ؟ جہاں گرڈ اسٹیشن لگایا ہوا ہے محمود آباد میں کتنی دیر بجلی آتی ہے ؟۔
چیف جسٹس نے وکیل کے الیکٹرک سے کہا کہ آپ کا تو ایگریمنٹ ہی ختم ہوگیا ہے پتا نہیں کیسے چلارہے ہیں ، لوگوں کو بلیک میل کرکے ادارہ چلارہے ہیں ، نجی اداروں کے پاس تو یہ سروس ہونی ہی نہیں چاہیے ، اجارہ داری بنائی ہوئی ہے ، انہوں نے تانبا بیچ کر اربوں کھربوں روپے بنالیے ، المیونیم کی تاریں لگا دیں تباہ کردیا سسٹم سارا ، سب سے پہلے شہر کی تاریں بدل دیں ، جہاں بجلی چوری ہوتی ہے وہ دوسروں کے بلوں میں ڈال دیتے ہیں ، آپ کا کام صرف پیسہ ہے ، منی منی اور منی بس۔
چیف جسٹس نے کہاکہ بورڈ آف ڈائریکٹر کہتے ہیں پیسہ کیسے کمانا ہے بس ، ابھی تو یہی نہیں معلوم اس کے پیچھے کون ہے ، کون اصل میں چلارہا ہے کے الیکٹرک ، ہمیں اس پر بھی حیرت نہیں ہوگی اس کا تعلق ایسے ملک سے ہو جس سے ہمارا باقاعدہ ریلیشن ہی نہیں۔عدالت نے کے الیکٹرک کو جواب کیلیے ایک دن کی مہلت دے دی ۔