متحدہ قومی موومنٹ کے گرفتار ہونے والے رہنما اور سابق سینیٹر میاں عتیق نے مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر راجہ بازار راولپنڈی میں قیمتی قطعہ اراضی پرقبضہ کی کوشش کی۔ بظاہر یہ زمین کی خرید و فروخت کا معاملہ بنایا گیا۔ لیکن جعلی کاغذات تیارکرکے زمین کے جعلی مالکان کھڑے کیے گئے اور انہیں بظاہر پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی بھی کر دی گئی۔ جبکہ بقیہ 6 کروڑ روپے کی ادائیگی زمین کے انتقال کے بعد ہونا تھی۔ میاں عتیق کی گرفتاری پولیس کی تیار کردہ ’’ہوٹل آئی‘‘ ایپ سے ممکن ہوئی۔
دوسری جانب تفتیشی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ میاں عتیق کے حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ وہ ماضی میں متحدہ لندن کے لیے منی لانڈرنگ کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ان سے اس بارے میں بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی سن گن ملنے پر ایم کیو ایم پاکستان کی صفوں میں بھی سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ کیونکہ متحدہ پاکستان کے کئی رہنما چند برس قبل تک بانی متحدہ کو غیر قانونی طریقے سے بھاری رقوم لندن بھجواتے رہے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق پچاس سے پچپن کروڑ روپے مالیت کی اس انتہائی قیمتی اور موقع کی جگہ کی قیمت محض گیارہ کروڑ روپے طے ہونے سے ہی ابتدائی طور پر معاملہ مشکوک ہو گیا تھا۔ تاہم جب موقع پر جاکر قبضہ لینے کے لیے خریدار پہنچے تو راز کھل گیا کہ دستاویزات اور مالکان دونوں اصلی نہیں تھے۔ موقع پر موجود اصلی مالکان نے اس سارے معاملے پر حیرانی کا اظہار کیا اور پھر زمین کے جعلی مالکان بن کر جعلی ڈیڈ تیار کرانے والے اور زمین کے بظاہر خریدار، سبھی غائب ہو گئے۔
پولیس ذرائع کے مطابق جعلسازی کے ساتھ راجہ بازار میں اس قیمتی قطعہ اراضی کو ہتھیانے کی ملی بھگت میں مبینہ طور پر رجسٹری برانچ کا متعلقہ عملہ بھی شریک تھا۔ جس نے جعلی دستاویزات کی تیاری میں مدد دی۔ تاہم اصل مالکان کے موقع پر موجود ہونے سے ساری جعلسازی ایکسپوز ہوگئی۔ اس معاملے کے اصلی مالکان کی وجہ سے ایکسپوز ہونے کے بعد ہی سب رجسٹرار اور اے سی عباس ذوالقرنین نے اپنی مدعیت میں ایم کیو ایم کے سابق سینیٹر اور 9 دیگر مبینہ جعلسازوں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔
ذرائع کے مطابق سابق سینیٹر اور ان کے مبینہ جعلساز ساتھیوں نے اس صورت حال کے بعد بھی اپنی ضمانت کرائی اور نہ ہی شامل تفتیش ہوئے اور اپنے پانچ کروڑ روپے واپس لینے کے لیے کسی سے رابطہ بھی نہیں کیا۔ اسی دوران پنجاب پولیس کی ایک پارٹی ملزمان کو پکڑنے کے لیے تیار کی گئی۔ ذرائع کے مطابق ’’ہوٹل آئی‘‘ ایپ نے سابق سینیٹر کو اس وقت ایک ہوٹل میں قیام کے دوران گرفتار کرا دیا جب وہ لاہور کے تھانہ قلعہ گوجر سنگھ کے علاقے میں ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے گئے تھے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس ایپ کی مدد سے پولیس کو مطلوب ملزمان یا اشتہاری جب بھی کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے کسی شہر میں جاتے ہیں تو فوری طور پر ان کی اطلاع پولیس کے مقامی تھانے کو ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد ان کا بچ نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سابق سینیٹر میاں عتیق کی گرفتاری قلعہ گوجر سنگھ تھانہ کی پولیس نے کی اور راولپنڈی پولیس کے حوالے کر دیا۔
واضح رہے کہ میاں عتیق کی پنڈی پولیس کے حوالے ہونے کے بعد مقامی عدالت نے انہیں پندرہ روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا ہے۔ جبکہ پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کرنے کے علاوہ دیگر شریک ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش شروع کر دی ہے۔
پولیس کے تفتیشی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مطلوب ملزمان میں سے دو ملزمان کا انتقال ہو چکا ہے۔ تاہم دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ پولیس ذرائع نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ راجہ بازار میں مقبول ہوٹل سے متصل 11 مرلہ پر مشتمل قیمتی قطعہ اراضی ایک کارنر پلاٹ ہے۔ اس کے اصلی مالک کا نام ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے دفتر سے محمد اشرف معلوم ہوا ہے۔ تاہم زمین کا اصلی مالک ابھی تک مقدمے میں فریق نہیں بنا ہے۔ نہ ہی وہ پولیس کے رابطے میں آیا ہے۔ اہم بات ہے کہ جس جعلسازی کے معاملے میں زمین کی رجسٹری اور انتقال کرنے والے محکمے کا کردار بنیادی ہے اور اس محکمے کی مدد یا تعاون کے بغیر جعلسازی کا آغاز بھی نہ ہو سکتا تھا، اسی کے اہم ذمہ دار اے سی پنڈی اور متعلقہ سب رجسٹرار اس اہم مقدمے میں مدعی بن گئے ہیں۔
مقامی اے سی اور سب رجسٹرار عباس ذوالقرنین کی مدعیت میں درج کرائے گئے مقدمے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ جعلساز افراد نے فروری 1935ء کی ایک ڈِیڈ کے تحت راجہ بازار میں اس کارنر پلاٹ کو اپنی ملکیت ظاہر کیا اور اس زمین کو مبینہ طور پر سینیٹر میاں عتیق اوران کے دو ساتھیوں، محسن علی، رشید پراچہ اور خواجہ احمد سرور فروخت کرنے کے لیے پراسس کا آغاز کرنے کی درخواست کی۔ معاملہ مشکوک ہونے پر مدعی نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے رابطہ کیا اور بعد ازاں جعلسازی کی دفعات 420، 467، 468 اور 471 کے تحت مقدمہ تھانہ گنج منڈی میں ایف آئی آر درج کرا دی۔ یہ ایف آئی آر گزشتہ سال ماہ جون میں درج کرائی گئی۔
اہم بات یہ ہے کہ ایف آئی آر میں وقوعہ کی تاریخ 3 جنوری 2021ء بتائی۔ جبکہ میاں عتیق سینیٹ کے رکن تھے، مگر ایف آئی آر چھ ماہ بعد درج ہوئی۔ لیکن اہم بات ہے کہ زمین کے اصل مالکان کا نام محض خانہ پری کے لیے ایف آئی آر میں درج نظر آتا ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ معاملہ عدالت میں جانے کے بعد اصل مالکان کی عدم موجودگی میں پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس کیس میں مبینہ طور پر سب سے بااثر ملزم کو آئی ٹی کی مدد سے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن پنڈی پولیس نے اس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اس معاملے میں ملوث دیگر ملزمان میں سے کسی کو گرفتار کیوں نہیں کیا ہے۔
پولیس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اصل مالکان اراضی کے پاس موجود دستاویزات 1928ء کی ہیں۔ جبکہ مبینہ جعلسازی سے تیارکرائی گئی دستاویزات 1935ء کی ہیں۔ تاہم ان ذرائع نے اس بارے میں خاموشی اختیار کی ہے کہ زمین کی رجسٹری اور انتقال سے متعلق شعبے میں جہاں مبینہ جعلی دستاویزات تیار کی گئیں، اس ادارے کے کسی اہلکار یا ذمہ دار کو ابھی تک شامل تفتیش کیا گیا ہے یا نہیں؟ معاملہ جس سست روی سے چل رہا ہے، اس سے نتائج کچھ بھی آسکتے ہیں۔