حمزہ شہباز کی ہفتے کو ملک واپسی کی امید ہے ۔فائل فوٹو
حمزہ شہباز کی ہفتے کو ملک واپسی کی امید ہے ۔فائل فوٹو

حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کو ہٹانے کی درخواستوں پر تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیاہے جوکل دوپہرساڑھے 12 بجے سنایا جائے گا ۔حمزہ شہبازکو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیسے نظراندازکردیں، سپریم کورٹ جا کرفیصلے پرنظرثانی کرائیں، تشریح موجودہ حالات میں لاگو ہو گی۔

لاہور ہائیکورٹ میں حمزہ شہبازکوعہدہ سے ہٹانے کے لئے درخواستوں پر سماعت کے موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت اورحمزہ شہباز کے وکیل پیش ہوئے، جبکہ سابق وزیر قانون راجہ بشارت ، تحریک انصاف کے رہنما سبطین خان سمیت دیگر بھی عدالتی کمرے میں موجود تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی جس میں جسٹس شاہد جمیل خان ،جسٹس شہرام سرور چوہدری ، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل ہیں۔

دوران سماعت جسٹس شاہد جمیل نے نقطہ اٹھایا کہ ڈی سیٹ ہونیوالے ارکان کا ریفرنس بھیج دیا گیا، سپریم کورٹ میں معاملہ زیرسماعت تھا، وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، ہم اسے کیسے نظراندازکردیں، کیا یہ فیصلہ ماضی پراطلاق کرتا ہے، آپ اس پوائنٹ پرمعاونت کریں۔

حمزہ شہبازکے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مستقبل پراطلاق ہوتا ہے۔ جس پرجسٹس شاہد جمیل نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ میں جاکراس فیصلے پرنظرثانی کرائیں، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہم تو سپریم کورٹ کا فیصلہ اطلاق ماضی سے سمجھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات میں لاگو ہو گی۔ اگرہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہو گا تو ہم فوری احکامات جاری کریں گے۔ مخصوص نشستوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے یا نہیں یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں۔ ہم الیکشن اورسپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کو دیکھ رہے ہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر ہم فیصلہ دیں کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب کالعدم اور نیا انتخاب کروائیں، اگر ہم ایسا کریں گے تو سپریم کورٹ فیصلے کو کالعدم کریں گئے،سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ منحرف اراکین کے ووٹ ڈالنے پر انتخاب کالعدم قرار دیا جائے، حکم یہ ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کیے جائیں، آپ سپریم کورٹ کی تشریح کو پڑھ سکتے ہیں۔

ق لیگ کے وکلا نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون ہرچھ ماہ بعد تبدیل ہو جائے،آپ کے سامنے 63 اے کی تشریح آئی کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے کا ووٹ شمار نہیں ہوگا،لاہور ہائیکورٹ نے جو حلف قومی اسمبلی کے اسپیکر سے لینے کا حکم دیا وہ غیر قانونی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت نے دلائل دیےکہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ منحرف اراکین نے پارٹی خلاف ورزی نہیں کی،ان کو اخلاقی بنیاد پر ڈی سیٹ کیا جا رہا ہے۔