نذر الاسلام چوہدری:
پیٹرول اورڈیزل کی مسلسل بڑھتی قیمتوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں الیکٹرک کاروں، موٹر سائیکلوںِ لوڈرز سمیت بسوں اوررکشاؤں کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ اگرچہ کہ پاکستان سمیت ایشیائی وعالمی خطوں میں الیکٹرک کاروں کی کھپت اوراستعمال ابھی انجن والی گاڑیوں کی نسبت کم ہے، لیکن شہروں کے اندر کم فاصلے کے سفر کیلیے اس وقت عوامی استعمال کیلئے الیکٹرک بائیکس موجود ہیں۔
ادھر الیکٹرک رکشا کی اہمیت نے بھی عوام کی توجہ حاصل کرلی ہے، کیونکہ عوام کو الیکٹرک رکشا کی صورت میں کرایوں میں کم و بیش نصف کرائے کی بچت ہو رہی ہے اور یہ الیکٹرک رکشا بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں خاصی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے الیکٹرک رکشاؤں اور ٹرائی موٹر سائیکلز لوڈرزکی بہت بڑی تعداد چین، ویتنام، تھائی لینڈ، میانمار، لاؤس اور فلپائن میں زیادہ ہے، جہاں بنا انجن والے الیکٹرک رکشاؤں کی بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے۔ پاکستانی الیکٹرک رکشہ میں 48 وولٹ بیٹری، تین کلو واٹ موٹر اور کنٹرولر موجود ہیں۔ یہ تمام چیزیں رکشہ ڈرائیور کی نشست تلے موجود ہیں۔ یہ رکشہ کسی بھی گھر، دفتر یا خاص چارجنگ پوائنٹ پر بآسانی چارج کیا جاسکے گا۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس الیکٹرک رکشے کو پانچ گھنٹوں میں چارج کر کے 170 کلومیٹر تک چلایا جا سکتا ہے، جبکہ سواریوں کیساتھ اس کی حد رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ تک جاسکتی ہے۔
کمپنی کے مطابق ایک لیٹر پٹرول میں جتنا رکشہ چلتا ہے، اتنا ہی ایک یونٹ بجلی میں چلے گا۔ بجلی کا ایک یونٹ بیس اکیس روپیہ کا ہے، جبکہ ایک پٹرول 230 روپے لٹر ہے۔ اگر رکشہ ڈرائیور کو پیسوں کی بچت ہوگی تو یقیناً سواری یعنی مسافرکو کرایہ کی بھی بچت ہوگی۔ الیکٹرک رکشہ کے ایکسپرٹس کا دعویٰ ہے کہ ان سے ڈرائیور یا مالک کو ایندھن کی مد میں سالانہ ڈھائی لاکھ روپے تک کی بچت ہوگی۔ جبکہ 30 ہزار روپے اس کی مینٹی نینس یعنی دیکھ بھال، ٹیوننگ، موبل آئل کے بھی بچ سکیں گے۔
مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام سری نگر سے صحافی شبیر احمد کاکہنا ہے کہ مقامی کمپنی ’’کائینیٹک‘‘ کی جانب سے الیکٹرک رکشا متعارف کروائے جاچکے ہیں، بے آواز سمعی و ماحولیاتی آلودگی سے پاک یہ رکشا عوام کی پسند بھی ہیں۔ اگر چہ کہ ڈرائیور کی عقبی نشست پر صرف دو افراد کے گنجائش ہے لیکن اس کا کرایہ عام رکشا کے کرائے کی نسبت 50 فیصد ہے، جس سے کشمیری عوام بیحد خوش ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ہمیں کرائے میں بڑی سہولت ہے، یہ شور نہیں کرتا اور رفتار بھی اچھی ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں تو ایک مقامی کار مکینک نے اپنی کار کی چھت پر سولر پینل لگا کر سبھی کو نا صرف حیران کردیا ہے بلکہ کار مکینک نے دیگر افراد کو بھی اس نظام کو لگوانے کی پیشکش کی ہے۔
مقامی جریدے ’’یا لبن‘‘ سے گفتگو میں بیروت کے رہائشی احمد الصفادی نے بتایا ہے کہ کار کی چھت پر الیکٹرک سولر پینل نصب کرکے انہوں نے دن بھر مفت میں سفر کا انتظام کرلیا ہے اور رات کے سفر کیلئے انہوں نے چارجنگ نظام کی مدد سے ایک طاقتور بیٹری اِنسٹال کرلی ہے۔ پاکستان میں اگر چہ کہ الیکٹرک رکشا کا پروٹو ٹائپ پانچ سال قبل ہی کامیابی سے بنا لیا گیا تھا، لیکن اس وقت مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے اب رکشا مالکان کی توجہ ان گاڑیوں کی جانب سے مبذول ہورہی ہے، جن میں انجن، پٹرول، کاربوریٹر یا چین سمیت انجن آئل کا کوئی بکھیڑا نہیں ہے۔ صرف اس میں موٹر اور بیٹری ہے۔ رفتار کو کم یا زیادہ کرنے کیلیے الیکٹرونک کنٹرولر اوراسپیشل چارجر موجود ہے، جبکہ ایسے رکشا اور لوڈرز سمیت موٹر سائیکلز کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے ایک بار چارج کرکے دن بھر کا یا ضرورت کا سفر مکمل کیاجاسکتا ہے۔ ایسے رکشاؤں کا پک اپ بہت طاقت ور ہے اور یہ پل اور چڑھائی وغیرہ پر کوئی مسئلہ نہیں کرتا۔
لاہور میں ایسے رکشا بنانے والی ایک مقامی کمپنی کے انجینئرز کا دعویٰ ہے کہ یہ ماحول دوست سواری ہے، جو ایک چارجنگ پر سو سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کا سفر کرسکتی ہے۔ اس کی بیٹری لائف اچھی ہے اوراگر امپورٹڈ طاقتور لی تھیم بیٹری کا استعمال کیا جائے تو اس کی کارکردگی مزید اچھی ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی الیکٹرک سواریوں میں کسی قسم کا کوئی شور نہیں ہے نا کک ہے یا سلف ہے۔ گوجرانوالہ میں ایک مقامی انجینئرنگ ورکس کمپنی کے فور مین صداقت کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں نے عوام وخواص کو الیکٹرک رکشاؤں اور گاڑیوں کی جانب رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عام پیٹرول یا گیس والا رکشا جس فاصلہ کے سفر کیلئے 300 روپے چارج کرتا ہے اس سفر کو الیکٹرک رکشا میں 100روپے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ الیکٹرک رکشا کی مرمت کا کام بھی کم ہے ، کیونکہ اس میں انجن ہی نہیں ہے۔
صداقت کا کہنا ہے کہ ہم نے باریک بینی کیساتھ اس کا خرچ اور بجلی کے یونٹس کا حساب شمارکیا تو پتا چلا ہے کہ الیکٹرک رکشا کی لاگت ایک کلومیٹر فی روپیہ لگتی ہے یعنی یہ شاندار سواری 100کلومیٹر چلے گی تو اس کا خرچ بھی صرف سو روپیہ ہے۔ اب ڈرائیور یا مالک کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس سفر کیلئے مناسب کرایہ وصول کریں تاکہ الیکٹرک گاڑی کا فائدہ عوام کو پہنچے۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان کی الیکٹرک وہیکل پالیسی میں الیکٹرک موٹر سائیکلوں- رکشوں- اور بسوں کو فروغ دینے کا عزم ظاہرکیا گیا ہے، تاکہ سمعی و ماحولیاتی آلودگی ختم کی جاسکے،لیکن بظاہر اس سلسلے میں عملی اقدامات نہیں ہو سکے ہیں۔ الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت اگلے پانچ برسوں میں ایک ہزار الیکٹرک بسیں سڑکوں پر چلائی جائیں گی، جبکہ 2030ء تک جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تمام گاڑیاں 100فیصد الیکٹرک ہوں گی، وہیں پاکستان میں30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی، جن کی چارجنگ کیلیے سی این جی اسٹیشنوں کو الیکٹرک چارجنگ یونٹس بنادیا جائے گا۔