امت رپورٹ:
سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بادی النظر میں پنجاب میں جاری سیاسی بحران کے ختم ہونے کا امکان معدوم دکھائی دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر قاف لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کی رات اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی جانب سے قاف لیگ کے دس ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ کو رد کردیا۔ اورتحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو نیا وزیر اعلیٰ قرار دے دیا۔
جس وقت اس محفوظ فیصلے کو سنانے میں مسلسل تاخیر ہورہی تھی، تب دوسری جانب وزیراعظم ہائوس میں اتحادی پارٹیوں کے سربراہان کا اجلاس جاری تھا، جس میں متوقع فیصلے کے بعد کا لائحہ عمل طے کیا جارہا تھا۔ منگل کی رات ان سطور کے لکھے جانے تک یہ اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ شرکا میں سے تقریباً تمام کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ ممکنہ فیصلہ پرویز الٰہی کے حق میں ہونے جارہا ہے۔ اسی سیناریو کو پیش نظر رکھ کر اتحادیوں کا اجلاس بلایا گیا تھا کہ اس صورت میں آئندہ کا مشترکہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟ ذرائع کے مطابق اجلاس میں قانونی اور سیاسی دونوں قسم کی حکمت عملیوں پر مشاورت جاری تھی۔ اس دوران اس پر اتفاق کیا گیا کہ ممکنہ عدالتی فیصلے کے بعد اتحادیوں کے پاس قانونی آپشنز خاصے محدود ہوں گے۔ تاہم فل کورٹ کا مطالبہ مسترد کئے جانے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے، جس کا اشارہ ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے بھی دیا تھا۔ تاہم طے ہوا کہ اس معاملے پر مزید مشاورت کے لئے تمام اتحادی پارٹیوں کے قانونی ماہرین کی آرا لی جائیں گی، جس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ دوران اجلاس فرحت اللہ بابر کا ٹویٹ بھی زیر بحث آیا۔ واضح رہے کہ عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی ممکنہ فیصلے کو بھانپتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے پی ڈی ایم کو ججز کی تقرریوں اورترقیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی تھی۔ انہوں نے پوسٹ کیا کہ ’’اگر آپ واقعی ملک میں طاقت کا توازن بحال کرنے کے لئے فکر مند ہیں، تو آئین کے آرٹیکل ایک سو اکیانوے کو پڑھیں اور فیصلہ کن عمل کریں۔ ورنہ بڑبڑانا بند کردیں۔‘‘ فرحت اللہ بابر کے اس ٹویٹ کو چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ری ٹویٹ بھی کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی سمیت دیگر اتحادی پارٹیوں کے سربراہان نے بھی فرحت اللہ بابر کی اس تجویز کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ان رہنمائوں کے مابین یہ معاملہ زیر غور تو آیا ہے، تاہم فوری طور پر فیصلہ نہیں کیا جاسکا کہ عملی طور پر یہ قدم اٹھایا جائے یا نہیں۔ آج بدھ کو اتحادی پارٹیوں کے سربراہان پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔ اس موقع پر آرٹیکل ایک سو اکیانوے کا معاملہ پھر زیر بحث لایا جانا متوقع ہے۔
آئین کا آرٹیکل اکیانوے کہتا ہے ’’دستور اور قانون کے تابع، عدالت عظمیٰ، عدالت کے معمول اور طریقہ کار کو منضبط کرنے کے لئے قواعد وضع کرسکے گی۔‘‘ اس آرٹیکل کی تشریح کے لئے جب الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل ایک سو اکیانوے کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے لئے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ اگرچہ موجودہ وفاقی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود نہیں۔ تاہم وہ جوائنٹ سیشن بلاکر یہ ترمیم کرسکتی ہے۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ آرٹیکل ایک سو اکیانوے کے ذریعے وفاقی حکومت زیادہ سے زیادہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل ایک سو چوراسی/ تین کے تحت حاصل ازخود نوٹس کے اختیار پر پابندی لگا سکتی ہے۔ تاہم پنجاب میں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے اس ترمیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل مولانا فضل الرحمان نے قاف لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت سے ان کی رہائش گاہ پر جاکر ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات کے بارے میں ایک لیگی رہنما کا دعویٰ تھا کہ مولانا فضل الرحمان اسی لئے چوہدری شجاعت کے پاس گئے تھے کہ پرویز الٰہی کے حق میں آنے والے ممکنہ فیصلے کے تناظر میں انہیں ایک نیا خط لکھنے پر آمادہ کرسکیں۔ پی ڈی ایم کے ایک عہدیدار کے بقول اتحادیوں کے درمیان اس پر پہلے ہی مشاورت ہوچکی ہے کہ اگر چوہدری شجاعت اپنے منحرف دس ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے ڈپٹی اسپیکر کو خط لکھ دیں، تو جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی کے خط پر الیکشن کمیشن نے ان کے پچیس منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کرکے ان کے ووٹ شمار نہیں کئے تھے، اور اس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی اکثریت ختم ہوگئی تھی۔ چوہدری شجاعت کے نئے خط کے ذریعے یہی صورتحال پرویز الٰہی کے لئے پیدا کی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل تریسٹھ اے کہتا ہے ’’اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوجائے، یا اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جس سے اس کا تعلق ہو، جاری کردہ حسب ذیل سے متعلق کسی ہدایت کے برعکس ایوان میں ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے اول، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا انتخاب، دوم ، اعتماد یا عدم اعتماد کا ووٹ، سوم ، کسی مالی بل یا دستوری ترمیمی بل۔ تو پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر اعلان کرسکے گا کہ وہ اس سیاسی جماعت سے منحرف ہوگیا ہے۔ اور پارٹی کا سربراہ اعلان کی ایک نقل افسر صدارت کنندہ (اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر) اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکے گا اور اسی طرح اس کی نقل متعلقہ رکن کو بھیجے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ اعلان کرنے سے پہلے، پارٹی کا سربراہ مذکورہ رکن کو اس بارے میں اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے گا کہ کیوں نہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کردیا جائے۔ اعلان کی وصولی پر ایوان کا افسر صدارت کنندہ دو دن کے اندر وہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا، اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوجائے تو یہ تصور کیا جائے گا کہ اس نے ارسال کردیا ہے، جو اعلان کو الیکشن کمیشن کے سامنے اس بارے میں چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے اس کی وصولی میں تیس دن کے اندر اعلان کی توثیق کرتے ہوئے یا اس کے برعکس اس کے فیصلے کے لئے رکھے گا۔ جبکہ الیکشن کمیشن اعلان کی توثیق کردے تو مذکورہ رکن ایوان کا رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ناراض کوئی فریق، تیس دن کے اندر، عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کرسکے گا، جو اپیل داخل کرنے کی تاریخ سے نوے دنوں کے اندر اس معاملے کا فیصلہ کرے گا۔‘‘
اس بارے میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں ’’قاف لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ڈپٹی اسپیکر اور الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دس پارٹی ارکان نے ان کی ہدایت کے برعکس ووٹ کاسٹ کیا۔ لہٰذا انہیں ڈی سیٹ کیا جائے۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن کے پاس ان دس ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نوعیت کا فیصلہ کرنے میں ان کے پاس شہادت کے طور پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا خط موجود ہے۔ اس خط کی بنیاد پر ہی الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ان پچیس ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ اوران کے ووٹ شمار نہیں کئے تھے، جنہوں نے وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الٰہی کے بجائے حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالے تھے۔ اس صورت میں پرویز الٰہی بھی اکثریت کھو بیٹھیں گے۔ اور ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرایا جائے گا۔ ان ضمنی الیکشن کے نتائج آنے تک حمزہ شہباز کی طرح پرویز الٰہی کو بھی ’’ٹرسٹی وزیراعلیٰ‘‘ بنایا جاسکتا ہے۔
کہنے کا مقصد ہے کہ ایک بحران دربحران والی صورتحال ہے۔ لہٰذا یہ امکان کم ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب کا سیاسی بحران حل ہوجائے گا۔‘‘ اس سوال پر کہ چوہدری شجاعت کا نیا مجوزہ خط اسی وقت کارگر ہوسکتا ہے جب پہلے یہ ثابت ہوجائے کہ ان کی پارٹی کے دس ارکان نے پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کے برعکس ووٹ دیا۔ کیونکہ قاف لیگ یہ کہہ چکی ہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل ان کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تمام ارکان کو پرویز الٰہی کے لئے ووٹ کاسٹ کرنے کی ہدایت کردی گئی تھی۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ، چوہدری شجاعت اپنے خط میں یہ لکھ سکتے ہیں کہ پارلیمانی لیڈر نے اس نوعیت کی ہدایت جاری کرنے سے قبل انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ انہیں اندھیرے میں رکھا گیا اور حقائق چھپائے گئے۔ لہٰذا پارلیمانی لیڈر کو بھی ڈی سیٹ کیا جائے۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ چوہدری شجاعت کا نیا خط پنجاب میں جاری بحران کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ تاہم یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ چوہدری شجاعت نیا خط لکھ کر خاندان میں پیدا ہونے والی خلیج کو مزید گہری کردیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی حکومت کے رہنما اس معاملے میں چوہدری شجاعت کو کنوینس کر پاتے ہیں یا نہیں۔