سیلاب سے10 ارب ڈالر کا نقصان

امت رپورٹ:

پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو کم از کم 10ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو سیلابی صورتحال بہتر ہونے کے بعد سروے میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف بارشوں اور سیلاب سے کم از کم 1061 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

 این ڈی ایم اے کے مطابق مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہونے کا تخمینہ ہے، اب تک ملک کے 116 اضلاع میں جانی یا مالی نقصان ہوا ہے جہاں قریب 10 لاکھ مکانات اورعمارتوں کو نقصان پہنچا ہے وہیں دیہی علاقوں میں سات لاکھ سے زیادہ مویشی بہہ گئے ہیں

صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 23 اضلاع آفت زدہ ہیں جبکہ ایک کروڑ 45 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثرین میں شامل ہے

صوبہ بلوچستان کے 34 اضلاع اور 91 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ افراد متاثرین میں شامل ہیںپنجاب میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے کل 8 اضلاع اور وہاں کی 48 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے،خیبر پختونخوا کے 33 اضلاع میں سیلاب سے 43 لاکھ سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے

حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں 10 ارب ڈالر کا مجموعی نقصان ہو چکا ہے۔ 10 لاکھ گھر تباہ ہو چکے۔ 3000 سے زائد سڑکیں ختم ہوگئیں۔ تین ساڑھے تین سو کی تعداد میں چھوٹے بڑے ڈیم، سینکڑوں تعلیمی ادارے، مساجد، عبادت گاہیں، 145 دریائی اور نہری پلوں سمیت تباہ ہوئے ہیں۔ 20 لاکھ ایکڑ پر فصلیں اور زیر کاشت زمین سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سب سے زیادہ نقصان صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں ہوا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نقصان نسبتاً کم ہوا ہے۔ سیلاب سے نمٹنے کیلیے سرگرم ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے اب تک کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار سے زائد پاکستانی سلاب کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ سیلابی تباہ کاری کے نتیجے میں تقریباً سات لاکھ کی تعداد میں مال مویشی اوربھیڑ بکریاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔

ماہرین کے مطابق سیلاب کی تباہ کاری کے اثرات سے نکلنے اور 116 اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کیلیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلیے اب تک کے تخمینے کے مطابق 10 ارب ڈالرکی خطیر رقم درکار ہوگی۔ صرف اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے پاکستان میں سیلاب زدگان کیلیے سرگرمیاں جاری رکھنے کیلیے 160 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان آج سے جنیوا میں اس سلسلے میں ایک مشترکہ اپیل کرنے جارہی ہیں۔ تاکہ بین الاقوامی ڈونرز سے فنڈز کا حصول ممکن بناکر پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ حکومت پاکستان کو10ارب ڈالرکی رقم کا حصول اس کے علاوہ اپنے طور پر کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے جغرافیائی اور زمینی رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں رواں ماہ کے شروع میں غیر معمولی بارشوں سے سیلابی تباہ کاریاں شروع ہوئیں۔ بعد ازاں یہ سلسلہ صوبہ سندھ اور کے پی کے سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوگیا۔ شمالی علاقہ جات بھی اس طوفانی بارشوں کے سلسلے سے محفوظ نہ رہے۔ ان تقریباً چار ہفتوں کے دوران پاکستان بھر کے 116 اضلاع سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔ جبکہ 66 اضلاع میں بدترین تباہی ہو چکی ہے۔ محکمہ موسمیات اور دیگر سرکاری اداروں کے مطابق اب تک ہونے والی بارش مجموعی طور پر گزشتہ 30 برسوں کے دوران ہونے والی بارش سے 2.87 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ تاہم بعض علاقوں میں رواں موسم برسات کے دوران پچھلے 30 برسوں کے مقابلے میں 5 گنا سے بھی زیادہ بارش ہوچکی۔ ادھر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق ماہ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں بارشوں کا ایک اور اسپیل آسکتا ہے۔

’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے ادارے ’’اوچھا‘‘ (OCHA) کے سینئر فیلڈ کوآرڈی نیشن آفیسر تنویر خان اور سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ سے تفصیلی بات چیت کی کہ سیلاب سے متاثر علاقوں اور عوام کی بحالی کیلئے کیا کیا اقدام کرنے کی ضرورت ہے اور اب تک کتنا نقصان ہوچکا ہے۔ ان کے خیالات قارئین کی نذر ہیں۔

اوچھا کے سینئر فیلڈ کوآرڈی نیشن آفیسر تنویر خان کے مطابق ابھی تک جو بھی اعداد و شمار سامنے آسکے ہیں کہ ان کو سیلاب سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے مکمل اور حتمی قرار دیا جاسکتا ہے نہ آنے والے دنوں میں سیلاب متاثرہ شہریوں کی بحالی کے لئے تخمینے کو حتمی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ابتدائی اندازہ ہے۔ جہاں تک حتمی اندازے کا تعلق ہے۔ اس میں بارشوں کے تھمنے اور پانی کے خشک ہونے کے بعد ہی زیادہ موثر سروے ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لئے آج کی تاریخ میں اگر کہا جائے تو کم از کم تین سے چار ہفتے مزید درکار ہوں گے۔ لیکن محکمہ موسمیات نے فی الحال صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں بارشوں کے ایک اور اسپیل کی پیش گوئی کی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ بارشوں کے خاتمے اور پانی کی خشکی کے بعد ہی اعدادوشمار مرتب کیے جائیں۔ تاہم جن علاقوں میں بارشیں رک جائیں اور پانی خشک ہونا شروع ہوجائے وہاں کے اعدادوشمار فوری طور پر مرتب کیے جاسکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں تنویر خان نے کہا ’’حکومت پاکستان کے متعلقہ ادارے ضلعی اور صوبائی اور اوچھا کی ٹیمیں اب تک کے تخمینے کیلئے مل جل کر کام کرتی رہی ہیں۔ جہاں ہمیں فیلڈ میں دور تک رسائی حاصل ہے۔ حکومت اور حکومتی ادارے ہمارے فراہم کردہ اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہیں اور جہاں حکومتی ادارے فعال ہیں یا ضلعی صوبائی انتظامیہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہاں سے وہ ہمیں اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ ہمارا اعدادوشمار مرتب کرنے کا نظام ہفتہ وار بنیادوں پر مرتب کرتا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے آنے والے ایک دو دنوں میں ہمارا ادارہ ’’اوچھا‘‘ سے موازنہ کی بنیاد پر کام کرنا شروع کردے۔ اب تک کا جو نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وہ ساڑھے سات ارب ڈالر کا رہا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ یہ حتمی تخمینہ ہے تو درست نہیں‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’برساتی پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور ہر سال اپنے عوام کو تباہی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر میں سنجیدگی دکھائی جائے۔ بصورت دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ملک اور ملک کے عوام کے حق میں خطرناک ہوتے جائیں گے‘‘۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیلاب کی صورت میں ملک کو بہت بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ہونے والا نقصان سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ وہاں کے عام لوگوں کی زندگی پہلے ہی بہت سے مسائل کی زد میں ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیم کے علاوہ فوری طور پر صوبہ بلوچستان میں رہائشی فراہمی کے منصوبوں کی ضروت ہوگی۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ یہ جو میں نے خوراک، صحت اور تعلیم و رہائش کی بات کی ہے یہ فوری اقدامات میں سے ہیں۔ فوری، عارضی رہائش کا اہتمام لازمی ہوگا کہ اگلے ایک دو ماہ بعد موسم میں خنکی آجائے گی۔

کئی علاقوں میں اچھی خاصی سردی آسکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت کو محض بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر آسکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے چار پانچ گنا زیادہ رقم خرچ کرکے عارضی ریلیف کا اہتمام کرنا ہوگا۔ تاکہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی، خوراک، صحت کی بنیادی سہولتوں اور ان کے بچوں کیلئے تعلیمی سہولیات کا سلسلہ دوبارہ سے اور فوری طور پر بحال ہوچکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طویل مدتی منصوبہ بندی بھی کرنا ہوگی۔ تباہ حال متاثرین کی بحالی کیلیے سڑکوں کی تعمیر، گھروں کی تعمیر، اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور مارکیٹوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کے علاوہ انہیں آسان شرائط پر قرضوں یا امداد دینا ہوگی۔ تب جاکر کئی برس بعد ان کی زندگی نارمل ہوسکے گی۔

ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی حکومت نے برسات اور سیلابی خطرات کو مدنظر رکھ کر وسائل رکھے ہوں۔ منصوبہ بندی کی ہو۔ ہر سال بارشوں کے دوران تھوڑا جذباتی پن دکھایا جاتا ہے۔ پھر بھلادیا جاتا ہے۔ اس کلچر سے حکومتوں کو نکلنا ہوگا۔ کیونکہ آنے والے سال موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ابھی سے منصوبہ بندی میں ان خطرات کو شامل کرنا ہوگا۔ ڈیم بنانے میں رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا تاکہ چند برسوں بعد لاکھوں خاندانوں کی تباہی اور ہزاروں افراد کی جانوں کے نقصان سے بچاجاسکے۔ روایتی نہیں سائنسی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوسکتا ہے ہمیں اپنی بودوباش کے انداز میں تبدیلیاں لانا پڑیں۔ اس لئے سیلاب سے ہونے والی اس تباہی کو سامنے رکھ کر سوچنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ متعلقہ محکمے، ادارے اور حکومت فوکس کرے کہ آئندہ ہم نے اپنے عوام کو تباہی سے کس طرح بچانا ہے۔ سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا تو ہمارے لوگوں کو آنے والے برسوں میں ایسی تباہی سے بچانا ممکن ہوگا۔ بصورت دیگر محض وقتی انتخابی اور سیاسی ضرورتوں کی بنیاد پر سوچا گیا اور وسائل خرچ کئے گئے تو تباہی کا آنے والے برسوں میں زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں سابق وزیر خزانہ نے کہا ’’ہمارے ہاں آنے والے برسوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا اندیشہ بھی ہے۔ یہ برساتی پانی سے بھی زیادہ خطرے والی بات ہوسکتی ہے۔ ہماری لیڈر شپ کو اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے۔

ادھر جنوبی پنجاب میں ریسیکیو آپریشن مکمل ہو چکا ہے اور ریلیف کے کام تیزی سے جاری ہیں۔ تاہم بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں طبی امداد کیلئے رسائی ممکن نہیں ہو رہی۔ جس کی سرکاری طور پر بھی تصدیق کی گئی ہے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور اس سے ملحقہ سندھ و بلوچستان میں متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں المصطفیٰ ویلفئر ٹرسٹ اور کسان اتحاد رابطہ کمیٹی کی میڈیکل ٹیموں میں شامل ڈاکٹروں نے بتایا کہ خواتین، بچے اور معمر افراد زیادہ بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

راجن پور کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے فاضل پور میں موجود المصطفیٰ ویلفئر ٹرسٹ کی میڈیل ٹیم کی رکن ڈاکٹر وردہ اجمل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے ڈی جی خان اور راجن پور کے ساتھ ساتھ سندھ و بلوچستان کے ملحقہ علاقوں میں بھی جہاں تک کشتی سے جانا ممکن ہوا، طبی امداد فراہم کی ہے اور اس وقت بھی وہ فاضل پور میں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ طبی امداد کے منتظر متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ الخدمت فائونڈیشن سمیت کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، صاف ستھری خوراک نہ ملنے، سیلاب کے پانی اور اس میں ملنے والے گندے پانی میں مچھروں کی افزائش کے باعث ڈینگی اور ملیریا بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اس وقت سیلاب متاثرین خارش سمیت جلدی امراض، نظام تنفس، ہیضہ اور ملیریا مبتلا ہیں۔ خواتین کے امراض اور مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ گھر بار اجڑنے، جانی و مالی نقصان، پیاروں کے بچھڑ جانے اور سیلاب کے خوف سے بدترین نفسیاتی مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں اور اس سے خواتین اور خاص طور پر حاملہ خواتین بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر وردہ کے مطابق انہیں بتایا گیا ہے کہ سیلاب میں پناہ کی تلاش میں نکلے ایک خاندان کی خاتون زچگی کے دوران ہی انتقال کر گئی۔ اس وقت بھی خواتین کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے اور سہولتیں نہ ہونے کے باعث خواتین کو راجن پور اور ڈی جی خان کے اسپتالوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ ادویات کی شدید قلت ہے۔ متاثرین کو جن ادویات کی ہنگامی طور پر ضرورت ہے۔ ان میں اینٹی فنگس کریم، اینٹی بیکٹریم کریم، اینٹی سیپٹک کریم، اینٹی بائیوٹک، درد کشا گولیاں، اسپرٹ، پائیوڈین، پٹیاں اور کف سیرپ شامل ہیں ۔ تونسہ شریف کے علاقے میں حقوقِ خلق موومنٹ و کسان رابطہ کمیٹی کی میڈیکل ٹیم میں شامل ڈاکٹر عالیہ حیدر نے بتایا کہ سیلاب متاثرین میں بڑی تعداد ذہنی دبائو کے مریضوں کی بھی ہے۔ حاملہ خواتین بھی شدید مسائل کا شکار ہیں۔ یہاں ادویات کی شدید ضرورت ہے۔ جس کی فراہمی کیلئے ہر کسی کو اپنا کردار فوری طور پرادا کرنا چاہئے۔ ابھی بھی دوردراز متاثرین تک پہنچ کر طبی امداد فراہم کرنا مشکل ہے۔ سیلاب متاثرین کو طبی امداد کیلیے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں نجی تنظیموں کے میڈیکل کیمپوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں میں ان ٹیموں کی رسائی نہیں ہو پارہی۔ جس کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ سیلاب متاثرین کو سب سے زیادہ خطرات سانپوں سے ہے۔ بڑی تعداد میں متاثرین اور سانپ ایک ہی جگہ پر خشکی پر ہیں اور سانپ کے ڈسنے اور کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب ہی نہیں۔

صوبہ بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر نور قاضی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس وقت دیگر ادویات کے ساتھ ساتھ کتے کے کاٹے اور سانپ کے ڈسنے کی ویکسین سرے سے ہی موجود نہیں۔ جبکہ ایسی اطلاعات زیادہ صوبہ سندھ سے موصول ہو رہی ہیں۔ تاہم کسی ذمہ دار حکام سے اس کی تصدیق نہیں ہو رہی۔ اس کے برعکس بلوچستان حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اتوار تک گزتشہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سانپ کے ڈسنے کے چار مریضوں کو طبی امداد فراہم کی گئی تھی۔

ڈاکٹر نور قاضی نے بتایا کہ بلوچستان میں سیلاب سے نقصان بھی زیادہ ہوا ہے اور متاثرین تک رسائی بھی ناممکن حد تک مشکل ہے۔ ایک طرف راستے نہیں ہیں۔ دوسری جانب ادویات کی شدید قلت ہے۔ سانپ کی ویکسین تو سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بلوچستان کی حکومت کو چھ کروڑ چوراسی لاکھ پندرہ ہزار تین سو اکیاون روپے مالیت کی ادویات کی شدید ضرورت ہے۔ جس کی تصدیق کرتے ہوئے ڈی جی ہیلتھ نے بتایا کہ بلوچستان نے ادویات کیلئے سندھ حکومت سے بھی بات کی ہے کہ سندھ سے ملحقہ علاقوں تک ادھار ادویات فراہم کی جائیں اور پنجاب سے بھی رابطہ کیا ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت سے بھی درخواست کی گئی ہے۔ ادویات کی قلت اور متاثرین کی ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے ڈی جی ہیلتھ نے بتایا کہ خاص طور پر خواتین کے مسائل اور امراض کی ادویات اور متعلقہ اشیا کی شدید ضرورت ہے۔