امت رپورٹ:
عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مہلک امراض میں بھی اضافہ ہوگا۔ جس کے آثار سامنے آنے لگے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے جلد کے کینسر، امراض قلب، فالج، گردہ اور جگر کے عوارض تیزی سے پھیل سکتے ہیں۔ ان بیماریوں کا خاص طور پر دھوپ میں زیادہ دیر رہنے والے افراد کو سامنا ہوگا۔ جبکہ کئی خطوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے امراض قلب سمیت گردے، معدے اور پھیپھڑوں کے عوارض بھی عود کر آرہے ہیں۔
یونیورسٹی آف برسٹل، برطانیہ میں کلائمیٹ سائنسز کے محقق پروفیسر ڈین مچل کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور شمال کے دیگر ممالک میں لوگ گرم دنوں میں گھروں سے زیادہ تر باہر رہتے ہیں۔ ان افراد کویووی شعاعوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے جلد کا کینسر ابھر رہا ہے۔ اس ضمن میں سینکڑوں افراد گزشتہ چند ماہ میں جلد کے کینسر میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ہیٹ ویو امراض قلب سمیت فالج اور اچانک ہارٹ اٹیک کا سبب بھی بن رہی ہے۔
پروفیسر مچل کے مطابق کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات اور کیس کا براہ راست تعلق موسمیاتی تبدیلی اور بلند ہوتے درجہ حرارت سے ہے۔ اُدھر یونیورسٹی آف شفیلڈ کی میڈیکل آنکولوجی کی سینئر پروفیسر سارہ ڈینسن نے بھی خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ شدید گرمی میلانوم سے اموات کا باعث بن سکتی ہیں۔ وسطی امریکا کے متعدد طبی سائنسدانوں نے انسان قلب پر بدلتے موسم اورآب و ہوا کے منفی اثرات سے خبردارکیا ہے اور تیزی سے بڑھتے امراض قلب کے واقعات اور مریضوں میں علاج کے حوالہ سے’’کلائمیٹ کار ڈیالوجی‘‘ کی نئی طبی اصطلاح بھی وضع کی ہے۔ کیونکہ ان علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے امراض قلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
یونیورسٹی آف ہوائی کے ڈیٹا سائنٹسٹ ڈاکٹر کمیلو مورا کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے دل، گردے اور جلد سمیت دیگر مہلک امراض کی شدت بڑھ رہی ہے۔ ڈیٹا سائنٹسٹ ڈاکٹر کمیلو کہتے ہیں کہ کسی بھی خطہ میں موسم میں شدت بڑھنے کی وجہ سے جراثیموں کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں اور ان کا انسانوں پر حملہ شدید ہوجاتا ہے۔ امریکی تحقیق میں یہ بات بھی پایہ ثبوت کو جا پہنچی ہے کہ گرین ہاؤس گیسز یا جی ایچ جی کی وجہ سے امراض کی شدت بڑھ رہی ہے اور نصف اقسام سے زائد امراض انسانوں کو شدید بیمار کر رہے ہیں۔ اقوام ا متحدہ اورعالمی ہیلتھ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ دنیا میں ابتک رونماہوئی بڑی موسمیاتی تبدیلیوں میں تپش، ہوا میں نمی، خشک سالی، سیلاب، طوفان، جنگلات کی آگ اور دیگر محرکات بھی شامل ہوچکے ہیں، جو مختلف اقسام کی مہلک بیماریوں اور انفیکشنز میں اضافہ کا سبب ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل ’’گلوبل ہیلتھ‘‘ نے کہا ہے کہ ہیٹ ویو، دل کیلئے بہت زیادہ ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک طرف شدید موسم، خوراک اور پانی کی کمی کا سبب ہے تو دوسری جانب دل کی بیماری سمیت کئی بیماریوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ایک عام اندازہ کے مطابق صرف ایک سال 2019ء میں ہیٹ ویوز کی وجہ سے دنیا بھر میں ترانوے ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ نیویارک کے ’’ماؤنٹ سینائی اسپتال‘‘ کے ڈاکٹر مائیکل ہیڈلی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور مہلک امراض کے درمیان براہ راست تعلق پایا گیا ہے۔
ڈاکٹر مائیکل کہتے ہیں کہ ان عوامل میںآلودہ ہوا بھی شامل ہے جو سانس، دل اور فالج جیسے مہلک امراض کا باعث بن رہی ہے۔ ’’یورو نیوز‘‘ نے بتایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی جسم پرکم و بیش دس منفی طبی اثرات کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بتدریج اگلی دو دہائیوں میں جب زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا تو عالمی حدت کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ہم گرمی اور جنگل کی آگ جیسی مہلک لہروں کو کا سامنا کریں گے۔ تحقیق کے مطابق انتہائی درجہ حرارت میں امراض قلب کے دوروںکی وجہ سے سالانہ پچاس لاکھ افراد ہلاک ہورہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں تناؤ اور اضطراب سے منسلک ہیں۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے محقق کلنٹن مائنر کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے پوری دنیا میں نیند کی کمی کا مسئلہ بھی پیدا کر دیا ہے۔ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ گرمی میں اضافہ سے پانی کی کمی گردوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ جب فضائی آلودگی پھیپھڑوں اور دل کے ذریعے خون میں داخل ہوتی ہے تو خون کی نالیوں کے تنگ اور سخت ہونے سے دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔