وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پوری قوم میں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ وقت کروڑوں سیلاب متاثرین کے دکھ درد بانٹنے کا ہے، انتشار پھیلانے کا نہیں ہے۔
سرکاری خبر ایجنسی ’اے پی پی ’ کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے کھربوں روپے درکار ہوں گے، دوست ممالک سے امدادی سامان پہنچنا شروع ہو گیا ہے، سیلاب کی تباہی کی وجہ سے آنے والے دنوں میں گندم کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزرا، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں شہر اور دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، تباہ کن سیلاب سے ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں، لاکھوں ایکڑ پر چاول، کپاس اور دیگر فصلیں اور کھجور کے درخت مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔
امدادی رقم بڑھا کر 70 ارب روپے کر دی گئی ہے
وزیراعظم نے کہا کہ ابتدائی طور پر امداد کے لیے 28 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور 25 ہزار روپے فی خاندان متاثرین کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امداد دی جا رہی ہے اور یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ 11 لاکھ گھرانے متاثر ہوئے، 28 ارب روپے میں سے اب تک 20 ارب روپے سے زائد شفاف طریقہ سے تقسیم کیے جا چکے ہیں لیکن نقصانات زیادہ ہونے کی وجہ سے امدادی رقم بڑھا کر 70 ارب روپے کر دی گئی ہے اور یہ 70 ارب روپے خالصتاً وفاقی حکومت بطور امداد دے رہی ہے، یہ رقم 30 لاکھ سے زائد گھرانوں کو ملے گی، اس سلسلہ میں وفاقی وزیر شازیہ مری جانفشانی سے امدادی رقم کی تقسیم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ 70 ارب روپے جلد تقسیم کر دیئے جائیں گے، اس کے علاوہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو 10، 10 لاکھ روپے دیئے جا رہے ہیں، 80 فیصد چیک تقسیم کیے جا چکے ہیں، زخمیوں کو بھی مالی امداد دی جا رہی ہے۔
یہ وقت اکٹھے ہونے کا ہے انتشار پھیلانے کا نہیں
وزیراعظم شہباز کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں اکٹھے بیٹھنے کی ضرورت ہے، بحالی کا کام بھی ایک چیلنج ہو گا جس کے لیے کھربوں روپے درکار ہوں گے کیونکہ متاثرہ علاقوں میں پل اور ہزاروں میل لمبی سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں، ریاست مدینہ کی بات کرنے والے کو سیلاب میں ڈوبی قوم کیوں نظر نہیں آتی، یہ وقت اکٹھے ہونے کا ہے انتشار پھیلانے کا نہیں، میڈیا قوم کو اکٹھا کرے، اگر قوم اکٹھی ہو جائے تو کوئی چیلنج معنی نہیں رکھتا۔