سجاد عباسی/ نجم الحسن عارف:
عمران خان کے انتہا پسندانہ سوچ کے حامل مشیروں نے انہیں سیاست کے ساتھ قانون کے میدان میں بھی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکیاں دینے کے معاملے پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کا جواب مسترد کرتے ہوئے 22 ستمبر کو ان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان کے جواب میں مشروط معافی کے الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ادا کئے گئے الفاظ کا جواز پیش کیا گیا ہے۔ جو عدالت کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ توہین عدالت کے کیس میں اب تک کسی اور سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت کو عدالت کی جانب سے اس قدر مہلت دی گئی نہ سوچنے کا وقت دیا گیا۔ حالانکہ اس حوالے سے تجزیہ کاروں کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی رہی کہ بادی النظر میں تحریک انصاف کے سربراہ کو غیر معمولی رعایت دی گئی ہے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی بار بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ جرم بہت سنگین نوعیت کا ہے۔ لیکن آپ کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ بعض تجزیہ نگار اور قانونی ماہرین اس بحث میں مصروف ہیں کہ اگر عمران خان فرد جرم عائد ہونے سے پہلے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیتے ہیں تو اب بھی ان کے سر پر لٹکتی نااہلی کی تلوار ہٹ سکتی ہے یا وہ کسی بھی دوسری سزا سے بچتے ہوئے اپنا سیاسی کیریئر محفوظ بناسکتے ہیں۔ تاہم ممتاز قانون دان خواجہ نوید احمد ایڈووکیٹ اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد عمران خان کے لئے معافی کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے انہیں اپنے موقف پر نظر ثانی اور فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے خاصا وقت دیا۔ مگر انہوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنے الفاظ میں ردوبدل کرتے ہوئے عملاً پرانے موقف پر قائم رہے۔ توہین عدالت کے کیس میں فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد اگر مدعا علیہ کے موقف سے عدالت مطمئن ہوجائے تو شوکاز Vacate یا Withdraw کرلیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں ملزم کے جوابات مسترد کرتے ہوئے اس پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جسے ’’فیصلے‘‘ کی حیثیت ہی حاصل ہے۔ جس کی بنیاد پر کیس آگے چلتا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے بعد معافی طلب کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایک سوال پر خواجہ نوید کا کہنا تھا کہ اگلی سماعت میں جب عدالت فرد جرم عائد کرے گی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ عمران خان صحت جرم سے انکار کریں گے۔ جس کے بعد عدالت اپنی کارروائی آگے بڑھائے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے معافی مانگنے کے لئے عدالت سے ملنے والی مہلت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے جارحانہ رویے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر تحریک انصاف کے وہ سیاسی اور قانونی مشیر جنہیں Hawks (عقاب) سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کی سوچ پر حاوی ہوگئے اور انہیں عدالت سے ’’بھڑ جانے‘‘ کا مشورہ دیا۔ حالانکہ توہین عدالت کیس میں لیڈنگ رول ادا کرنے والے نامور قانون دان اور پارٹی کے بانی رکن حامد خان کا مشورہ تھا کہ اس معاملے میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کو اپنا سیاسی کیریئر محفوظ بنالینا چاہئے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کچھ ایسا ہی مشورہ اسد عمر، پرویز خٹک اور بعض دیگر سیاسی مشیروں نے بھی دیا تھا۔ تاہم ماضی قریب میں چیئرمین تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر بابر اعوان نے اس بات پر زور دیا کہ عمران خان اپنے موقف پر ڈٹے رہیں۔ اس سے دبائو میں اضافہ ہوگا۔ عوامی مقبولیت کی لہر ویسے ہی ان کے حق میں ہے۔ ایسے میں عدالت کے لئے انہیں توہین عدالت جیسے کیس میں سزا سنانا آسان نہیں ہوگا۔ ذریعے کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری سمیت بعض دیگر سیاسی مشیر بھی اس موقف کے حامی تھے۔ آخرالذکر موقف رکھنے والے مشیروں کی دلیل یہ بھی تھی کہ اس وقت ’’سسٹم‘‘ تحریک انصاف کے حق میں نہیں ہے۔ ایسے میں اگر عمران خان غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں تو زیادہ خدشہ اس بات کا ہے کہ عدالت انہیں فوری سزا سنادے گی اور اس طرح ان کا سیاسی کیریئر تباہ ہوجائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ توہین عدالت کیس میں سخت فیصلہ آنے کی صورت میں مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے غیر رسمی مشاورت شروع کر دی ہے۔ جبکہ جلد ہی اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی بلایا جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ توہین عدالت کیس میں قانونی ٹیم کی سربراہی کرنے والے سینئر قانون دان حامد خان پارٹی قیادت سے نالاں ہونے کے باعث طویل عرصے سے عمران خان سے دور تھے۔ حالانکہ ان کا شمار تحریک انصاف کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ تاہم اس کیس میں خاص طور پر ان کی خدمات اس لئے حاصل کی گئیں کہ اپنے قد کاٹھ اور وکلا تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے کی وجہ سے عدلیہ میں انہیں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اور عدالتیں اگرچہ اپنی کارروائی اور فیصلے تو قانون اور آئین کی روشنی میں کرتی ہیں۔ تاہم قانونی جنگ لڑنے والے وکلا کی ’’فیس ویلیو‘‘ بھی اس معاملے میں خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بابر اعوان جیسے گھاگ قانون دان کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے اس کیس میں حامد خان کو آگے لایا گیا۔ تاہم پس پردہ مشاورت پھر بھی حاوی رہی اور مہلت ملنے کے باوجود دھمکی آمیز الفاظ پر معافی مانگنے کے بجائے محض الفاظ کے ردوبدل اور ہیر پھیر کے ساتھ بیان پر ’’افسوس‘‘ تک بات محدود رکھی گئی۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عمران خان کے توہین عدالت کیس کو ماضی قریب کی جن تین سیاسی شخصیات کے مقدمات سے مماثل قرار دیا جاتا ہے، ان تینوں کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ جن میں نہال ہاشمی ایڈووکیٹ، دانیال عزیز اور طلال چوہدری شامل ہیں۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ عمران خان کا کیس صرف نہال ہاشمی کے مقدمے سے مماثلت رکھتا ہے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اس حوالے سے صراحت کے ساتھ کہا کہ توہین عدالت تین قسم کی ہوتی ہے جیسے فردوس عاشق اعوان کے کیس میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ایک جیوڈیشل توہین۔ دوسری سول توہین اور تیسری کرمنل توہین ہوتی ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری نے کرمنل توہین نہیں کی تھی۔ بلکہ ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا کیس تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے زیادہ سیریس کرمنل یا فوجداری توہین ہوتی ہے۔ جس میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا ارادہ ایسا کرنے کا نہیں تھا۔ کیونکہ اس توہین میں ارادہ معنی نہیں رکھتا۔ انہوں نے قرار دیا کہ عمران خان کا معاملہ کرمنل توہین کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی مماثلت نہال ہاشمی کے کیس سے ہے۔ جنہوں نے کسی جج کا نام لے کر دھمکی دی تھی۔ (واضح رہے کہ عمران خان نے خاتون سول جج زیبا چوہدری کا نام لے کر اپنی تقریر میں انہیں دھمکی دی تھی) ان کی معافی بھی سپریم کورٹ نے قبول نہیں کی تھی۔ عمران خان نے تو اس سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کی ہے۔ بہت بڑا جرم کیا گیا ہے۔ مگر احساس نہیں۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ جب یہ کیس زیر سماعت تھا تو فواد چوہدری نے واضح طور پر اس عدالت کو دھمکایا۔ مگر اس طرح کے بیانات سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے لئے عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ساتھ پیش ہوئے۔ جبکہ منیر اے ملک اور مخدوم علی خان نے عدالتی معاونین کا کردار ادا کیا اور دونوں نے توہین عدالت کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کو معاف کردے۔
دوسری جانب بعض سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس معافی کی گنجائش موجود ہے۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے عدالت کے سامنے غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز نے انہیں توہین عدالت کیس کے باضابطہ اور لمبے پراسس کی طرف دھکیل دیا۔ اب فرد جرم عائد ہونے کے بعد اس کیس کا ایک کرمنل ٹرائل کے طور پر آگے بڑھنا قانون و آئین کا تقاضا ہوگا۔ تاہم آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت عمران خان کو صفائی کا پورا موقع دینا ہوگا۔
سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر اسد منظور بٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت کی عزت وقار بہت اہم ہے اور اس کا ہر ایک کو خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن میری رائے میں یہ توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا۔ عمران خان نے شہباز گل والے معاملے میں جو بیان دیا۔ اس میں توہین عدالت موجود تھی نہ دہشت گردی والی کوئی چیز تھی۔ شہباز گل جس طرح چیخ پکار کر رہا تھا کہ اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا ہے۔ تو اس پر کسی بھی ملزم کے لواحقین اور ورثا کے تاثرات ایسے ہونا فطری ہیں۔ عمران خان نے اس پر حساب لینے کی جو بات کی تھی۔ وہ قانون کے مطابق ہر شہری کاحق ہے کہ وہ عدالت کے کسی فیصلے سے مطمئن نہ ہو۔ پھر میرے سامنے ایسی کوئی گواہی نہیں کہ خاتون جج نے ایک دن کے لئے بھی عدالت میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دینے میں مشکل محسوس کی ہو۔ دوسری بات یہ کہ وہ خاتون جج خود تو اس معاملے میں آج تک بطور شکایت کنندہ سامنے نہیں آئیں۔ اس لئے مجھے قوی امید ہے کہ جب فاضل عدالت کے پانچ بہترین جج صاحبان اس کیس کے میرٹس پر بات سنیں گے اور غور کریں گے تو اس کا فیصلہ سزا کی صورت آنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ پانچ رکنی بنچ میں بہترین دماغ موجود ہیں‘‘۔ اس سوال پر کہ کیا اس کی گنجائش ہے کہ فاضل جج حضرات فرد جرم عائد ہونے کے بعد اپنے اب تک کے موقف کو ’’ری وزٹ‘‘ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کیا آئین، قانون اور عدالتی پریکٹس میں ایسی گنجائش ہوتی ہے؟ بیرسٹر اسد منظور نے کہا ’’جی ہاں۔ جب ٹرائل میں شہادتیں اور دیگر ایگزامن اور کراس ایگزامن کے مراحل آتے ہیں تو ایسے کئی مواقع ہوتے ہیں کہ فاضل عدالت کے سامنے وہ چیزیں آتی ہیں، جو پہلے نہیں آسکی تھیں۔ اس لئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصا جب عدالت کا اپنا معاملہ ہو تو عدالت زیادہ فراخ دلی دکھاتی ہے۔ عدالتی اور قانونی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی ملزم عدالت کے لئے ایک ’’لاڈلے بچے‘‘ کی طرح ہوتا ہے۔ اس کو پورا موقع دیا جاتا ہے۔ عدالت ایک طرح سے اس کی خود محاظ بن کر اس کے ایک ایک حق کا تحفظ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت یہ ہر ملزم کا حق ہے کہ اسے پورا موقع دیا جائے۔ اس کی بات سنی جائے۔ اسے عدالتی کارروائی پر مطمئن کیا جائے۔ تب جاکر فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے لئے توہین عدالت کے اس معاملے میں سزا سے پہلے کیس کے میرٹس کافی اہم ہوں گے اور میرٹس پر فیصلہ ہونے کی صورت میں سزا کا امکان کم ہے‘‘۔
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان راشد حنیف ایڈووکیٹ نے کہا ’’توہین عدالت کے کیسز میں چند باتیں بنیادی اہمیت کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب کسی عدالت میں یہ کیس اسٹارٹ ہوتا ہے اور ملزم ابتدائی مرحلے میں ہی کسی دلیل اور دفاع میں نہ پڑے۔ بس عدالت کے سامنے غیر مشروط معافی کا خواستگار ہو جائے تو غالب امکان ہوتا ہے کہ عدالت اس کے لئے نرم انداز اختیار کرے گی۔ لیکن اگر عدالت میں ملزم غیر مشروط معافی نہ مانگے تو پھر ٹرائل ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اس معاملے میں عدالت 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کرے گی۔ اب یہ ایک کرمنل کیس کی طرح ٹرائل سے گزرے گا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’کرمنل توہین عدالت کا کیس بھی ہوتا ہے اور سول توہین عدالت کا بھی۔ اس کیس کو عدالت نے کرمنل توہین عدالت کے طور پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اٹارنی جنرل پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر اس کیس کا چالان عدالت میں پیش کریں گے۔ اس کے بعد فرد جرم عائد ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرائل کیس کے طور پر اس کیس کی سماعت آگے چل کر کرے گی۔ شہادیں ہوں گی۔ چیزوں کا ایگزامن اور کراس ایگزامن ہوگا۔ جرح ہوگی اور آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو پورا موقع دیا جائے گا۔18 ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین میں آرٹیکل 10 اے شامل کیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کے خلاف عدالتی فیصلہ سامنے لانے سے پہلے اسے پورا موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنا کیس لڑسکے۔ اپنی صفائی میں جو کچھ کہنا چاہتا ہے کہہ لے۔
غیر مشروط معافی کا ایک اہم مرحلہ اگرچہ گزر چکا ہے۔ لیکن عدالت کا اختیار محدود نہیں ہے۔ وہ کسی بھی مرحلے پر یہ فیصلہ کرنا چاہے تو کر سکتی ہے کہ یہ معاملہ عدالت سے اپنے متعلق ہے۔ تاہم اب تک عدالت نے جو موقف اختیار کیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ عدالت نے اس بارے میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن جب عدالت عالیہ کے پانچ فاضل جج ایک بات پر متفق ہوں کہ اس معاملے کو آگے بڑھانا ہے تو یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ عدالت عالیہ میں اس کیس کے سلسلے میں عدالتی دائرہ اختیار کو جس طرح چیلنج کیا گیا ہے۔ اس پر عدالت میں بحث ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر ہوتی ہے تو اس سلسلے میں مجموعی فیصلے کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس معاملے کو بھی کیس کے میرٹس میں دیکھا جائے گا کہ اس کیس میں خاتون جج خود شکایت کنندہ کیوں نہیں بنیں۔ ایک اور نکتہ جو اس کیس کے ٹرائل کے دوران اہم ترین ہوگا۔ وہ یہ ہے کہ اسی واقعے کی بنیاد پر اسلام آباد کی ایک اور عدالت میں عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ تو سوال یہ ہوگا کہ کیا آئین اور قانون کی روشنی میں ایک ہی واقعے پر دو الگ الگ کیس دائر کئے جاسکتے ہیں۔ میرا خیال ہے اس پر دونوں طرف سے کافی دلائل ہوں گے۔ کیونکہ قانون سے ثابت کرنا پڑے گا کہ ایک واقعے پر دو کیس چل سکتے ہیں یا نہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان آج بھی عدالت عالیہ کی جاری کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں اور فیصلہ آنے کے بعد بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہوں گے‘‘۔
سابق صدر ہائی کورٹ بار شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’پہلی بات تو یہ اہم ہے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد نے کمال مہربانی کے ساتھ عمران خان کو موقع دیا تھا کہ وہ اپنے جواب کو داخل کرنے کی ایک اور کوشش کرلیں۔ اس کا یہ مطلب بھی تھا کہ عدالت عالیہ ان کے پہلے جواب سے مطمئن نہ تھی۔ عدالت نے انہیں اچھا خاصا موقع دیا تھا کہ وہ چاہیں تو غیر مشروط معافی مانگ لیں۔ لیکن عمران خان نے اپنے دوسرے جواب میں بھی معافی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس پر چیف جسٹس کو اپنے ریمارکس میں کہنا پڑا کہ عمران خان اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اظہار تاسف اور اظہار شرمندگی تو کیا۔ لیکن معافی نہیں مانگی۔ اگر شروع میں ہی بغیر وقت ضائع کئے غیر مشروط معافی مانگ لیتے تو بہتر ہوتا۔ اب تو باضابطہ ٹرائل ہوگا۔ باقاعدہ ثبوت پیش ہوں گے۔ گواہوں کو پیش کیا جائے گا۔ اس کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا‘‘۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’عدالت کے پاس معافی کا اختیار آئندہ بھی ہوگا۔ آج بھی تھا۔ اس لئے اگر عدالت سے ملزم کسی بھی مرحلے پر معافی کی درخواست کرتا ہے تو عدالت کی مرضی ہے معافی مانے یا نہ مانے۔ میں سمجھتا ہوں چونکہ اب یہ ایک ٹرائل کی طرف کیس چل پڑا ہے۔ اس لئے اس میں ڈیڑھ سے دو ماہ کم از کم لگ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس میں عدالت کو مدعا علیہ کو پورا موقع دینا ہے کہ وہ اپنے وکلا کے ذریعے بھرپور موقف پیش کرے یا اپنی صفائی کے حق میں دلائل پیش کرے۔ لہٰذا یہ فیصلہ آنے میں ڈیڑھ سے دو ماہ تو لگ سکتے ہیں۔ اس سے جلدی اس کا فیصلہ شاید نہ ہوسکے‘‘۔