رانا شمیم کو ایک اور بیان حلفی جمع کرانے کیلیے 1ہفتے کی مہلت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں غیرمشروط معافی مانگ لی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی پرقائم رہنا اور معافی دونوں ساتھ نہیں چل سکتے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی ، رانا شمیم کی جانب سے عدالت میں معافی نامہ دائرکیا گیا جس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج کا نام بیان حلفی میں لکھنا تھا مگرغلط فہمی کی بنا پراس وقت کے سینئر جج کی بجائے ہائیکورٹ کے موجودہ حاضرسروس جج کا نام لکھ دیا .

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے دوران ان کے منہ سے سینئرجج کے الفاظ باربار سنے ، 3 سال بعد 72 سال کی عمرمیں ذہنی دباؤ میں بیان حلفی لکھا، اپنی غلطی پرگہرا دکھ ہے ،عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں ،عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جب سے کارروائی شروع ہوئی ہے تب سے دکھ اورافسوس کا اظہارکر رہا ہوں ۔

سابق چیف جج  گلگت بلتستان نے لکھا کہ میری ضعف فہمی کی بنا پر جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس پرافسوس کا اظہار کرتا رہا ہوں ، اس عدالت کا کوئی حاضر سروس جج اس تنازع میں شامل نہیں ، اپنی غلط فہمی پراس عدالت کے تمام حاضر سروسز ججز سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں اورخود کوعدالتی رحم و کرم پر چھوڑتاہوں ۔

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے عدالت سے استدعا کی کہ مودبانہ درخواست ہے کہ میری معافی قبول کی جائے ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ  جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کا توہین عدالت کے حوالے سے قانون طے ہے ، ججزکے فیصلوں پر تنقید کریں تو ہم توہین عدالت میں نہیں بلائیں گے ،عدالت مزید وقت دے سکتی ہے کہ بیان حلفی جمع کرائیں ، جو الزام اس عدات پرلگایا گیا ہے اسے نظرانداز نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت کا پٹیشنرپرکوئی دباؤ نہیں ، بیان حلفی تسلی سے سوچ کر جمع کرائیں ،عدالت آپ کو ایک ہفتے کا وقت دیتی ہے، توہین عدالت کی کارروائی ہے اس کی حساسیت کوعدالت سمجھتی ہے ۔ عدالت نے  رانا شمیم کو ایک اوربیان حلفی جمع کرانے کیلیے ایک ہفتے کی مہلت دیدی۔