تہران: ایران میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی گرفتاری کے بعد پولیس حراست میں پراسرار موت کے خلاف کئی روز سے جاری مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔
عالمی میڈیا کے مطابق بدھ کو کہا کہ حالیہ مظاہروں کے دوران گذشتہ شب دو مزید مظاہرین مارے گئے جس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ ہو گئی۔
جمعے کو ایرانی حکام کی جانب سے 22 سالہ مہسا امینی کی موت کا اعلان کے بعد عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی جن کو گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر سکارف کو نامناسب طریقے سے پہننے کی وجہ سے دارالحکومت تہران میں حراست میں لیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ حراست کے دوران امینی پر تشدد کیا گیا اور سر پر چوٹ لگنے سے ان کی موت واقع ہوئی تھی، تاہم حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کی رپورٹ کے مطابق بدھ (آج ) کو سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے 15 شہروں تک پھیل گئے جہاں پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور کئی لوگوں کو گرفتار کیا۔
نیوز ایجنسی نے بتایا کہ مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا، پولیس کی گاڑیوں اور کچرے کے ڈبوں کو آگ لگا دی اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔
ارنا نے رپورٹ کیا کہ تہران، مشہد، تبریز، رشت، اصفہان اور شیراز سمیت ملک کے طول و عرض کے دیگر شہروں میں رات بھر احتجاجی جلوس نکالے گئے۔
ایران کے قدامت پرست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کو عوام سے خطاب میں کہا کہ انہوں نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کرکے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام ادارے ان حقوق کے دفاع کیلئے کارروائی کریں گے جن کی خلاف ورزی ہوئی۔
امینی کے آبائی صوبے کردستان کے گورنر اسماعیل زری کوشا نے منگل کو کہا تھا کہ احتجاج کے دوران تین افراد مارے گئے ہیں۔