آئی بی کو وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیک کی تحقیقات کا حکم

اسلام آباد (اْمت نیوز) سوشل میڈیا پر متعدد آڈیو لیکس کے وائرل ہونے کے بعد انٹیلی جنس بیورو کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی مبینہ جاسوسی کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے کیونکہ ایسی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ ایک ہیکر نے نہ صرف وزیراعظم شہباز شریف بلکہ سابق وزیراعظم عمران خان کی ریکارڈ کی گئی گفتگو کا بڑا ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کیلئے پیش کر دیا ہے۔

اس غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے کیونکہ آڈیو لیک صرف ٹیلی فونک گفتگو کے نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی پہلی ایسی لیک وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کے درمیان ہونے والی بات چیت تھی جس میں مؤخر الذکر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ مریم نواز نے ان سے اپنے داماد راحیل منیر کو بھارت سے پاور پلانٹ کیلئے مشینری کی درآمد کرنے میں سہولت فراہم کرنے کیلئے کہا تھا۔ دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ اس معاملے پر دونوں کے درمیان بات چیت بالمشافہ ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم ہائوس میں جاسوسی کے آلات نصب ہیں۔

لیک ہونے والی آڈیو میں توقیر شاہ کو کہتے ہوئے سنا گیا کہ درآمد میں سہولت کے باعث تنازع پیدا ہوگا۔ وزیر اعظم نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے پی ایس کو ہدایت کی کہ وہ مریم کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور وہ خود بھی ان سے بات کریں گے۔ اس کے علاوہ مریم چاہتی تھیں کہ راحیل کی ملکیتی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گرڈ اسٹیشن نصب کیا جائے۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ یہ معاملہ ’’قومی طریقے‘‘ حل کرنا چاہئے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک اور آڈیو مریم نواز کی جانب سے وزیراعظم سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور ان کے سرکاری معاملات چلانے کے انداز پر شکایت سے متعلق ہے کیونکہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور غریب طبقہ بہت متاثر ہوا ہے۔

ایک اور آڈیو میں چچا اور بھتیجی کے درمیان پرویز مشرف کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں بات ریکارڈ کی گئی ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی طریقہ ہے تو پرویز مشرف کو پاکستان آنے سے روکنا نہیں چاہئے۔

ایک اور آڈیو میں پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اور اس معاملے پر نواز شریف سے مشورہ لینے پر بات کی جا رہی ہے۔ ایک ذریعے نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ خلاف ورزی اس حقیقت کے باوجود ہوئی ہے کہ وزیراعظم آفس یا ان کے رہائش گاہ میں یہ معلوم کرنے کیلئے روزانہ تلاشی کی مشق ہوتی ہے کہ کہیں کوئی جاسوسی کا آلہ یا ڈیوائس تو موجود نہیں۔

تلاش کا یہ کام انٹیلی جنس بیورو کے ایس او پیز کے مطابق ہے کیونکہ یہی ایجنسی وزیراعظم، ان کی رہائش گاہ اور ان کے دفتر کی سیکورٹی پر مامور ہے۔ ماضی کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے ذریعے نے بتایا کہ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جس وقت پاناما پیپرز کیس پر سپریم کورٹ میں کارروائی جاری تھی اس وقت ایک جاسوس ڈرون وزیر اعظم کے رہائشی کمپاؤنڈ اور بعد میں ملحقہ عمارت میں قائم آئی بی ہیڈ کوارٹر کے چکر لگاتا تھا۔ آئی بی نے معاملے کی چھان بین کی اور متعلقہ حلقوں پر واضح کر دیا گیا کہ ڈرون دوبارہ بھیجا گیا تو اسے مار گرایا جائے گا۔

جاسوسی کا معاملہ 2010 میں بھی سامنے آیا تھا اور اس کی خبر انصار عباسی نے شائع کی تھی۔ بعض غیر ملکی مشنز اور ان کے آپریٹرز مبینہ طور پر تقریباً پوری وفاقی حکومت، اس کے تمام اعلیٰ دفاتر اور حساس تنصیبات بشمول ایوان صدر، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وفاقی سیکرٹریٹ کے دفاتر حتیٰ کہ دارالحکومت کے ریڈ زون میں وزارت داخلہ تک کی جاسوسی کر رہے تھے۔

انصار عباسی کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ داخلی سلامتی کے کام پر مامور ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے انکشاف کیا کہ ایک جدید جاسوسی ٹیکنالوجی ہے جو شعاعوں کی مدد سے بند کمرے میں ہونے والی ملاقاتوں میں کہی جانے والی باتیں آدھے کلومیٹر کے فاصلے سے ریکارڈ کر سکتی ہے۔

یہ ٹیکنالوجی کچھ غیر ملکی مشنز اور آپریٹرز ایوانِ صدر کے گرد موجود تقریباً تمام اعلیٰ اور اہم سرکاری دفاتر کی جاسوسی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ دسمبر 2009 میں، انہوں نے ایک خبر دی تھی کہ غیر ملک سے تعلق رکھنے والا نامعلوم ہاتھ وفاقی کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کی جاسوسی کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس مقصد کیلئے وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ایک مخصوص فاصلے پر جدید ترین آلات نصب کیے گئے ہیں جن کا پتہ چلا لیا گیا ہے۔

9 ستمبر 2009 کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت کابینہ کا خصوصی اجلاس ہونا تھا تاہم، جس کمرے میں اجلاس ہونے والا تھا سیکیورٹی اداروں کی جانب سے اس کمرے کی کلیئرنس نہیں دی گئی جس ککے باعث یہ اجلاس دو گھنٹے کیلئے موخر کر دیا گیا۔