نواز طاہر:
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کا ریٹ وقتی طور پر مزید گر سکتا ہے۔ تاہم روپے کی قدر میں استحکام کا انحصار نئے وزیر خزانہ کی پالیسیوں اور اقدامات پر ہوگا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں عالمی امدادی رقوم بھی اضافہ کریں گی۔ لیکن ڈالر کا مقابلہ اسی صورت ممکن ہے جب برآمدات کا حجم درآمدات سے بڑھایا جائے گا۔ واضح رہے کہ وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کر دیا ہے اور اسحاق ڈار نے سینیٹر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ہے اور وہ کسی وقت بھی وزارتِ خزانہ کا چارج لے کر کام شروع کردیں گے۔ تاہم یہ سطور لکھے جانے تک انہوں نے بحیثیت وزیر خزانہ حلف نہیں اٹھایا تھا۔ لیکن ان کے حلف اٹھانے سے قبل ہی یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ ڈالر کا ریٹ مزید گرنے والا ہے۔ جبکہ ڈالر کا ریٹ گرنے سے روپے کی قدر میں اضافے کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آگئی ہے۔
اس حوالے سے اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کی تبدیلی کے ساتھ ڈالر کے ریٹ میں کمی کی ایک وجہ ڈالر کا کاروبار کرنے والے سٹہ باز بھی ہیں۔ ایسے لوگ ہر حکومت میں ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ڈالر کی سرمایہ کاری یہاں سے نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں ڈال دی ہے اوراسٹاک مارکیٹ میں تیزی آگئی ہے اور جب دیکھیں گے کہ ڈالر کی قدر بڑھانا ہے تو اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکال لیں گے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال کے مطابق ہمارے ملک کی موجودہ شرح نمو، پیداواری حالات، درآمدات اور برآمدات کے بل کے مطابق ڈالر کا ریٹ ایک سے نوے سے ایک سو اٹھانوے روے تک ہونا چاہئے۔ لیکن مارکیٹ میں اس کا ریٹ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ڈالر خریدنے اور اسٹاک کرنے والے ہیں۔ جو ایک وقت میں ایک ڈالر پر پندرہ سے پینتیس روپے تک اضافی کما رہے ہیں۔ انہوں نے حالات بدلنے پر اس میں اس خوف سے کمی کی ہے کہ اگر ڈالر ایک سطرح پر فریز کر دیا گیا تو ان کا سرمایہ بھی منجمد ہوجائے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’پاکستان میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہمارا درآمدی بل بہت زیادہ ہے اوراس کے مقابلے میں برآمدات کم ہیں۔ جس سے زر مبادلہ کے ذخائر متاثر ہوتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے لگژری گاڑیوں سمیت کچھ اشیا کی درآمد پر پابندی لگائی ہے۔ لیکن یہ اتنی زیادہ نہیں کہ قابلِ ذکر حد تک درآمدی بل میں کمی آئے۔ جبکہ پیٹرول، خوردنی آئل، مشینری، خام مال اور کھانے پینے کی اشیا درآمدکرنا ہماری مجبوری ہے۔ اس لئے جب تک پیداوار میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ڈالر کا مقابلہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور پھر ہم ٹیکسٹائل کے شعبے میں جو برآمدات کرتے ہیں۔ ان کے لiے کپاس بھی درآمد کرتے ہیں تو اس صورتحال میں زر مبادلہ کے ذخائر پر کس حد تک مثبت اثرات ہوسکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر قیس اسلم نے مزید کہا کہ ابھی ڈالر کا ریٹ کچھ روز تک مزید نیچے آئے گا اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ لیکن یہ اتار چڑھائو ممکن ہے زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے۔ کیونکہ زر مبادلہ کے ذخائر میں سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے آنے والی رقوم بھی اضافہ کریں گی۔ لیکن اگر بیرونی ادارے نقد رقوم کے بجائے اشیا کی صورت میں امداد بھیجتے ہیں تو کیا صورتحال ہوگی، اسے بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ ایک غلط تاثر ہے کہ ڈالر کے ریٹ بڑھنے سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ملک میں زیادہ سرمایہ کاری کریں گے۔ حالانکہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے درآمدات کے بل پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور اس کا نقصان زر مبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔
اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر خزانہ کی تبدیلی بھی ڈالر کے ریٹ میں کمی اور روپے کی قدر بڑھنے میں کردار کی حامل ہے۔ لیکن سیلاب کے باعث عالمی برادری کا تعاون ایک بنیادی کردار ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ڈالر عالمی تجارتی کرنسی ہے اور ہم نے تمام ادائیگیاں ڈالر میں کرنا ہوتی ہیں۔ اب جبکہ عالمی اداروں نے پاکستان میں بد ترین سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی ادائیگیاں موخر کرنے اور ری شیڈول کرنے کا کم و بیش اعلان کردیا ہے اور ان کی طرف سے سگنلز مل گئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بھی کچھ رعایتیں ملنے والی ہیں تو یہ حالات پاکستانی روپے کی قدرمیں اضافے اورڈالرکا ریٹ کم ہونے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزیر خزانہ بدلتے حالات میں کیا پالیسی بناتے ہیں اورکیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔ یہ اقدامات ہی ڈالر کے ریٹ کا حقیقی تعین کریں گے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈالرکا ریٹ کچھ مزید کم ہوگا۔ مگر اہم کردار حکومتی اقدامات کریں گے۔ مصنوعی اقدامات سے صرف نقصان ہوگا۔ جس کا اسحاق ڈار ماضی میں تجربہ رکھتے ہیں اور یہ طریقہ ڈالر کی ڈمپنگ ہے۔