محمد اطہر فاروقی:
ملک میں سیلاب سے ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچنے کے باعث کراچی سے اندرون ملک جانے والی 20 ٹرینیں بند ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ٹرینوں کی اس بندش سے جہاں اب تک سرکاری خزانے کو تین ارب روپے کے قریب مالی نقصان ہوچکا ہے۔ وہیں ٹرینوں کی آمد و رفت سے روزگار کمانے والے قلی، ریلوے اسٹیشنوں پر کینٹین چلانے والے مالکان اور ان کے ملازمین بھی سخت معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ ٹرینوں میں سفر کرنے والا غریب، لوئر مڈل اور مڈل کلاس طبقہ بھی رل گیا ہے۔ ان مسافروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انٹر سٹی بس سروس والے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ ٹرینوں کی بندش سے صرف کراچی سٹی اور کینٹ اسٹیشن میں ساڑھے 4 سو قلی بے روزگار ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زائد قلی فلاحی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ کھانے پینے پر گزارا کر کے ٹرینیں چلنے کے انتظار میں کینٹ اسٹیشن پر ہی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قلی دن بھر اسٹیشن پر درختوں کے نیچے مخیر حضرات سے ملنے والی امدادکے منتظر رہتے ہیں۔
دوسری جانب کراچی کینٹ اسٹیشن کے اندر قائم کینٹین میں کام کرنے والے 135 افراد دیگر کاموں میں دیہاڑی لگانے پر مجبور ہیں۔ بیشتر افراد نے ہزاروں روپے ادھار کر کے گھر کا کرایہ اور بجلی کے بل ادا کیے ہیں۔ کراچی کینٹ اسٹیشن سے صرف مہران اور شاہ لطیف ایکسپریس حیدرآباد تک چلائی جا رہی ہیں۔ ریلوے کے بیشتر سرکاری ملازمین بھی تنخواہ کو ترس گئے ہیں۔ ٹرینوں کے اندر قائم ڈائننگ ہال میں کام کرنے والے افراد بھی کراچی کینٹ اسٹیشن میں ہی رہائش پذیر ہیں۔
ملک میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے اندرون سندھ کے مختلف مقامات پر ریلوے ٹریک زیر آب آگیا ہے۔ جبکہ متعدد مقامات پر ٹریک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ 25 اگست سے کراچی سے اندرون ملک جانے والی تمام ٹرینوں کو ٹریک زیر آب آنے کی وجہ سے معطل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد محکمہ ریلوے نے 3 مرتبہ ٹرینوں کو بحال کرنے کی تاریخ دی۔ لیکن ٹریک سے پانی نہ اترنے کے سبب آپریشن بحال نہیں ہوسکا۔ اب محکمہ ریلوے نے یکم اکتوبر سے کراچی سے ٹرین آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم ٹرینوں کی بندش کی وجہ سے یومیہ دیہاڑی کمانے والے افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے اس حوالے سے کراچی سٹی اسٹیشن اور کینٹ اسٹیشن کا سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ٹرینوں کی بندش سے سب سے زیادہ قلی متاثر ہوئے ہیں۔ کراچی سٹی اسٹیشن پر تقریباً 50 قلی اور کینٹ اسٹیشن پر 4 سو کے قریب قلی کام کرتے ہیں۔ عام طور پر ایک قلی 5 سو روپے سے لے کر 25 سو روپے تک یومیہ دیہاڑی کمالیتا ہے۔ جس میں سے 30 فیصد رقم ٹوکن کے عوض ٹھیکیدار کو دی جاتی ہے۔ تاہم ٹرینوں کی بندش کی وجہ سے قلی بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ساڑھے 4 سو قلیوں میں سے 80 فیصد قلی کینٹ اسٹیشن پر محصور ہو کر رہ چکے ہیں۔ کیونکہ ان کا آبائی تعلق اندورن ملک سے ہے۔ ٹرینیں نہ چلنے کے سبب تمام قلی کینٹ اسٹیشن پر ہی زندگی گزار رہے ہیں۔
قلیوں کے علاوہ اسٹیشن کے اندر بنے کینٹین میں کام کرنے والے تمام افراد بھی اپنی دکانیں بند کر کے گھروں کو جا چکے ہیں۔ کیونکہ ٹرینیں نہ چلنے کی وجہ سے روزگار نہیں۔ کینٹ اسٹیشن پر 45 کینٹین نما دکانیں ہیں اور ہر ایک دکان میں اوسطا 3 افراد کام کرتے ہیں۔ جو مجموعی طور پر 135 افراد بنتے ہیں۔ یہ سب اپنے آبائی علاقوں سے یہاں آکر دیہاڑی پر کام کر رہے ہیں۔ ٹرینوں کے اندر قائم ڈائننگ ہال میں کام کرنے والے افراد بھی ٹرینوں کے اندر دن گزار رہے ہیں۔ ٹرینوں کی بندش کی وجہ سے غریب، لوئر مڈل اور مڈل کلاس طبقہ بھی رل گیا ہے۔ اندورن ملک جانے والے افراد انٹر سٹی بسوں میں سفر کر رہے ہیں۔ جن کے مالکان مہنگے داموں ٹکٹیں فروخت کر کے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اس وقت کراچی کینٹ اسٹیشن سے صرف حیدرآباد کے لئے مہران اور لطیف ایکسپریس روانہ کی جا رہی ہے۔
ٹرینوں کی بند ش کی وجہ سے سرکاری خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 3 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ محکمہ ریلوے کے ترجمان کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ حالیہ سیلاب کے باعث ریلوے کو ملکی تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا ہے، اور محکمہ روزانہ دس کروڑ روپے سے زائد کے ریونیو سے محروم ہو رہا ہے۔ جبکہ ٹرینیں بند ہونے سے قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
’’امت‘‘ نے ٹرینیں بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد سے بات کی تو کینٹ اسٹیشن کے اندر قائم کینٹین میں کام کرنے والے محمد جہانگیر نے بتایا کہ اسٹیشن کے اندر مجموعی طور پر 45 دکانیں اور کینٹین موجود ہیں۔ ہر دکان پر 3 افراد کام کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت سب کے سب اپنی دکانیں بند کر کے جا چکے ہیں۔ کوئی اپنے آبائی علاقے میں چلا گیا تو کوئی کراچی میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں رہائش اختیار کیے ہوئے ہے۔ پورے کینٹ اسٹیشن پر محض اس نے دکان کھولی ہوئی ہے۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ جہانگیر نے بتایا کہ ’’میں سلطان آباد میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہوں۔ ہم عام دنوں میں ایک ہزار روپے دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ لیکن ٹرینیں بند ہونے کی وجہ سے وہ دیہاڑی بند ہے۔ کیونکہ مسافر نہیں ہیں تو روزگار کس طرح چلے گا۔ میں نے رواں ماہ گھر کے کرائے اور بجلی کے بل کی ادائیگی کیلئے ادھار لیا ہے۔ جبکہ گھر میں بچوں کے کھانے کیلئے بھی ادھار لے کر راشن خریدا ہے۔ اس وقت میں 30 ہزار روپے سے زائد کا مقروض ہو چکا ہوں‘‘۔ ایک اور سوال پر جہانگیر نے کہا کہ اسٹیشن کے باہر موجود قلیوں کو کوئی نہ کوئی فلاحی ادارہ یا مخیر حضرات تعاون کر دیتے ہیں۔ لیکن اسٹیشن کے اندر موجود اس جیسے افراد کے پاس کوئی نہیں آتا اور نہ ہی کسی کو علم ہے کہ اسٹیشن کے اندر کھڑی ٹرینوں کے ڈائننگ ہال اور بنی کینٹین میں کام کرنے والوں کا کام مکمل بند پڑا ہے۔
شکار پور سے تعلق رکھنے والے قلی غلام حسین نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ’’ٹرینیں بند ہوئے ایک ماہ اور دو دن گزر چکے ہیں۔ روز صبح اسی آس میں جاگتا ہوں کہ آج اعلان ہوجائے گا کہ ریلوے ٹریک ٹھیک ہوگیا ہے اور ٹرینیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ 32 روز سے میں اور ساتھی قلی صبح جاگنے کے بعد اسٹیشن کے درمیان بنے درخت کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ کھانا دے جاتا ہے اور دن گزر جاتا ہے۔ میرا گھر لاڑکانہ میں ہے اور وہاں بھی سیلابی صورتحال ہے۔ گھر جا کر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ یہاں شروع میں محکمے کی جانب سے کچھ پیسے دیئے گئے تھے۔ وہ ہم نے گھر میں بھیج دیئے۔ جیسے تیسے کر کے دن گزر رہے ہیں‘‘۔
قلی علی نواز نے بتایا کہ ’’ہم روز کمانے اور روز کھانے والے ہیں۔ ٹرین کی بندش کے بعد شروع کے چند دن تو کہیں نہ کہیں سے کھانا آجاتا تھا۔ مگر اب تو وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔ اسٹیشن کے اطراف دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا ہے۔ ہماری کسی نے مدد نہیں کی۔ ہم سفید پوشی میں کسی سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتے‘‘۔
ایک بزرگ قلی بیجار نے بتایا کہ ’’میں 40 سال سے کینٹ اسٹیشن پر قلی کا کام کر رہا ہے۔ میں نے کبھی اس طرح کی صورتحال نہیں دیکھی کہ ایک ماہ تک ٹرینیں بند ہوں۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے۔ حالات اتنے ابتر ہوچکے ہیں کہ ہم کھانے کیلئے مخیر حضرات کے آنے کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ کینٹ اسٹیشن کے آس پاس کوئی ایسا کام بھی نہیں کہ ہم محنت مزدوری کر کے وہ کام کر لیں۔ تاکہ گھر میں کچھ پیسے بھیج سکیں‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’میرا آبائی تعلق ضلع شکارپور کے ایک گاؤں سے ہے۔ جہاں گھر والوں کو بھی کھانے کیلیے فلاحی ادارے کھانا اور راشن دے رہے ہیں۔ کیونکہ سیلاب کی وجہ سے وہاں کی صورتحال بھی بہت بری ہے۔ شروع میں کئی روز تک فون پر بھی رابطہ نہیں ہو سکا تھا‘‘۔ بزرگ قلی نے بتایا کہ قلی کا کام ہوائی روزی ہے۔ کبھی 3 ہزار روپے تو کبھی 3 سو 4 سو روپے کما لیتے ہیں۔ اپنی کمائی کا 30فیصد حصہ ٹھیکہ دار کو دیتے ہیں۔ ٹرینوں کی بندش کی وجہ سے یہاں لوگ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔