سات برس کی عمرمیں پہلی بارکاردیکھی. عارف الحق عارف

امریکہ میں مقیم نامور پاکستانی صحافی عارف الحق عارف کی داستان حیات کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔ قسط وار پیش کی جانے والی اس کہانی میں جہاں وہ اپنے بچپن کے واقعات، ہجرت کے آزار اور اس دور کے سیاسی، سماجی و معاشی حالات بیان کریں گے۔ وہیں حصول تعلیم کیلئے آزاد کشمیر سے کراچی آمد اور صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد کی پچاس سالہ پیشہ ورانہ زندگی کے دلچسپ واقعات، تجربات اور مشاہدات میں بھی قارئین کو شریک کریں گے۔ عارف صاحب چونکہ خود پائے کے صحافی اور عمدہ لکھاری ہیں۔ لہذا ان کی کہانی انہی کے الفاظ میں پیش کی جا رہی ہے۔ جو ایک طرح کی خود نوشت سوانح حیات کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ (ادارہ)

سجاد عباسی

وادی بناہ (کوٹلی آزاد کشمیر) کے مشرق میں ایک فلک بوس پہاڑ ہے۔ جس کا نام پیر بڈیسر ہے۔ اس کے دامن میں مھل کے نام سے ایک پسماندہ اور قدرے دور دراز گاؤں ہے۔ اسی گاؤں میں جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہم پیدا ہوئے۔
پیر بڈیسر کا یہ بلند و بالا پہاڑ اور گاؤں اس وقت مقبوضہ کشمیر کا حصہ اور لائن آف کنٹرول سے زیادہ سے زیادہ ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہی مقام ہے۔ جہاں سے 26 فروری 2019ء کی دوپہر مکار دشمن بھارت کے دو لڑاکا مگ طیارے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوئے اور پاکستان کے شاہینوں نے کوئی موقع ضائع کئے ان کو نشانہ بناکر تباہ کردیا۔ جس کے مناظر وادی بناہ کے لاکھوں عوام نے اپنی آنکھوں سے دن کی روشنی میں دیکھے۔ دفاعی لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل اس بلند و بالا پہاڑ اور گرد و نواح کے وسیع علاقے کو انڈیا کی فوج نے اکتوبر 1947ء میں اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اور ہمارا خاندان قرب و جوار کے دیہاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوا۔
ہمارا یہ علاقہ اس زمانے میں آزاد کشمیر کے موجودہ ضلع میرپور اور مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوڑی کی سرحد پر واقع تھا۔ یہ علاقہ سرسبز اور برفیلے پہاڑوں اور شاداب گلزاروں کی وادی اور ایک خاص وضع و قطع کے بہادر کشمیریوں کی سرزمین ہے۔ یہ خطہ صدیوں سے گندم اور مکئی کے تابدار شگوفے پیدا کرنے کے لیے مشہور و ممتاز چلا آرہا ہے۔ آج بھی یہاں کا ہر نوجوان قریب قریب ایک ہی سانچے میں ڈھلا نظر آتا ہے۔ تندرست و توانا۔ جس کا ایک ہاتھ ہل کی ہتھی اور دوسرا قبضہ شمشیر پر۔ بانکا، جری، جیالا، سخت جان و سخت کوش۔ یہاں کے لوگ اپنے خون سے زندگی کی تاریخ لکھنے کے قائل ہیں۔

یہ گاؤں اس لحاظ سے پسماندہ تھا کہ ڈوگرہ راج میں کشمیریوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کی طرح کا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ انسانی حقوق نام کی کوئی چیز پورے خطۂ کشمیر میں نہیں تھی۔ مہاراجا کے کارندے مسلمان آبادی کے ساتھ غیر انسانی طرز عمل رکھتے۔ ان کو بیگار کے لیے طلب کرتے۔ مرضی کا کام لیتے اور اس کا معاوضہ بھی ادا نہ کرتے۔ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری تھا۔ جس کے ختم ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ ایک ایک کشمیری کی جاسوسی کا نظام وضع کیا گیا تھا۔ جس سے کوئی بچ نہیں سکتا تھا۔ وہ نظام انگریز کا دیا ہوا تھا۔ جو کچھ اس طرح تھا کہ ہر گاؤں میں ایک چوکیدار مقرر ہوتا۔ جو متعدد دیہات یا علاقوں پر مشتمل علاقے کے نمبردار کو جوابدہ ہوتا۔ ان نمبرداروں پر ایک ذیلدار ہوتا۔ جو سرکاری اہلکاروں مثلاً پٹواری، گرداور، مال افسر، تحصیل دار، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو حسبِ مراتب ہر دیہات میں ہونے والے جرائم اور غمی خوشی کی خبریں پہنچانے کا پابند ہوتا۔ اس نظام نے پورے کشمیر کو ایک طرح کی پولیس اسٹیٹ میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ خوف کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اگر کوئی پولیس کا سپاہی کسی دیہات میں کہیں نظر آجاتا تو دیہاتی یہ جانے اور سوچے سمجھے بغیر کہ یہ پولیس والا کیوں یہاں سے گزر رہا ہے۔ خوف کے مارے اپنے گھر سے مرغی یا جو بھی راشن میسر ہوتا۔ لے کر اس کی خدمت کے ارادے سے اس کے پاس حاضر ہو جاتے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی حالت زیادہ خراب تھی کہ ان کے ساتھ مہاراجا کشمیر کا سلوک امتیازی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتا تھا۔ اس لیے مسلمان اکثریتی علاقوں میں حکومت کی سخت گیری زیادہ ہوتی اور خاص خیال رکھا جاتا کہ وہاں اسکول قائم ہوں اور نہ طبی سہولتیں موجود ہوں۔ بلکہ بنیادی انسانی ضروریات بھی دستیاب نہ ہوں۔ مقصد ظاہر تھا کہ مسلمانوں اور دوسرے کشمیری عوام کی پوری نسل کو اَن پڑھ رکھا جائے اور ان کو علاج معالجے و دیگر سہولتوں سے محروم رکھا جائے۔ جو مہذب معاشروں میں عام لوگوں کو حکومتیں مہیا کرتی ہیں۔ اس سوچ کے پیچھے مہاراجاکی غالباً یہ دلیل تھی کہ اس کے بزرگوں نے جموں و کشمیر کے پورے علاقے کو انگریز حکومت سے وہاں کے عوام کے ساتھ 75 لاکھ نانک شاہی روپے میں خریدا تھا اور وہ اس طرح کشمیر کے ساتھ ساتھ لاکھوں کشمیریوں کو اپنا زر خرید غلام اور بلا شرکت غیرے ان کا مالک و آقا سمجھنے لگا تھا۔
ہمارا گھرانا غریب ضرور تھا۔ لیکن مذہبی روایات پر سختی سے کاربند اور دینی فکر و فہم کا حامل تھا اور ان ہی اسباب کی بناء پر علاقہ میں عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ہمارے خاندان کا کوئی فرد پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس لئے ہر اہم واقعہ زبانی یاد رکھا جاتا۔ یہی حال بچوں کی تاریخ پیدائش کا بھی تھا۔ شاہد یہی وجہ ہے کہ ہماری تاریخ پیدائش کا بھی کوئی ریکارڈ نہ تھا۔ البتہ خاندانی بزرگوں سے اس قدر معلوم ہوسکا کہ ہمارا سن ولادت 1942ء یا 1943ء ہے۔ تاہم اسکول کے داخلہ فارم پر اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے اپنی صوابدید پر یہ خیال کرتے ہوئے یہ تاریخ 10 جنوری 1940، درج کر دی کہ جب ہم میٹرک کریں تو ہماری عمر 20 سال ہو۔ تاکہ جلد نوکری مل سکے۔
ہمارے والدین بہت سیدھے سادے روایتی سے دیہاتی تھے۔ ہمارے خاندان کا تعلق مغل برادری سے تھا۔ والد حاجی عالم دین کاشت کار تھے اور پیشے کے اعتبار سے معمولی بیوپاری تھے۔ انہوں نے کارپینٹری کو بھی ذریعہ معاش کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔ والد صاحب عام استعمال کی اشیا کی خرید و فروخت سے مخصوص موسم میں تھوڑا بہت کما لیتے تھے۔ مگر یہ پیشہ کوئی مستقل ذریعہ آمدن نہ تھا۔ جو تھوڑی بہت کاشتکاری تھی۔ اس سے ملنے والا اناج اور سبزیاں بس اتنی ہوتی تھیں کہ خود اپنے ہی استعمال میں آجاتی تھیں۔ والد صاحب نے چار شادیاں کیں۔ دو شادیاں کم عمری ہی میں ہوگئی تھیں۔ میری والدہ محترمہ شاہ بی بی مرحومہ، میرے والد کی چوتھی اور آخری بیوی تھیں۔ جن سے میرے علاوہ دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ باقی تین بیویوں سے چار اولادیں تھیں۔ ہمارا یہ بھرا پرا کنبہ جہاں ہم سات بہن بھائی رہتے تھے۔ میری بنیادی تربیت گاہ اور پہلی درسگاہ تھی۔ یہیں ہم نے خاندانی چپقلش بھی دیکھی تو رشتوں کی اپنائیت کا ذائقہ بھی چکھا اور مشکل ترین حالات میں مضبوطی سے قدم جمائے رکھنے کا ہنر بھی سیکھا۔
ہم نے اپنی زندگی کے چند سال ہی اپنے آبا و اجداد کے دیہی علاقے مھل (مقبوضہ کشمیر) میں گزارے تھے کہ چودہ اگست کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کر دیا گیا۔ جس کے بعد کشمیر سمیت پنجاب اور ہندوستان بھر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ اس خطہ جنت نظیر کی خوشگوار یادیں آج بھی ہمارے ذہن و دل میں بسی ہوئی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں اور کشمیری مسلمان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں حصول پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ہمارا علاقہ بھی آزادی کی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس وقت میری عمر بمشکل چار پانچ سال ہو گی اور ہمیں ایک خواب کی طرح وہ مناظر ابھی تک یاد ہیں۔ ہمارے علاقے کے مسلمان تحریک آزادی کے معاملے میں بہت سرگرم تھے اور روزانہ ہی جلسے جلوس ہوتے۔ لوگ جتھوں کی صورت میں جمع ہوتے۔ جس میں بچے بھی شامل ہوتے اور ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے۔ ہمارے ذہن میں اب بھی کچھ دھندلی سی تصویریں ہیں۔


ہمارے ارد گرد کے دیہات میں سکھوں کے ایک فرقے ’’بسنتھ‘‘ کے سینکڑوں خاندان اور ہندو بھی آباد تھے۔ لیکن مسلمان اکثریت میں تھے۔ ان بسنتھوں اور ہندوؤں کی ہمدردیاں کانگریس کے ساتھ تھیں۔ اس لئے ان سے ہر وقت فسادات اور حملے کا خطرہ رہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے گاؤں کے بوڑھے، جوان اور بچے ہر وقت کسی بھی خطرے یا حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ چند توڑے دار دیسی ساختہ بندوقیں، نیزے، تبت، برچھیاں اور ڈنڈے ان کے ہتھیار ہوتے اور جلوس کی شکل میں راتوں کو ’’مٹھے‘‘ (شمعیں) روشن کر کے ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعروں سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے۔ دشمن بھی چوکنا رہتا اور اکثر خونریز جھڑپیں بھی ہو جاتیں۔ تاہم ہمیشہ پلڑا مسلمانوں ہی کا بھاری رہتا۔ ان فسادات اور جلسے جلوس میں ان اطلاعات کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا کہ ہندوستان کی تقسیم ہونے والی ہے اور پاکستان بن کر رہے گا۔ یہ حالات تھے جب 14 اگست کو ملک تقسیم ہوگیا اور برصغیر میں انڈیا اور پاکستان کے نام سے دو ملک وجود میں آگئے۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تو کشمیری مسلمانوں پر ریاستی مظالم کی انتہا کر دی گئی۔ ہندوستانی فوج نے ہمارے گاؤں سمیت قریبی علاقوں پر دھاوا بول دیا اور مسلم اکثریتی دیہات پر بھارتی فضائیہ کی طرف سے بمباری بھی ہونے لگی۔ ہر طرف تباہی اور بربادی کے مناظر تھے اور زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔ درجنوں دیہاتوں کے سینکڑوں لٹے پٹے مسلمان خاندان اپنے مال مویشیوں اور اسباب کے ساتھ بھَرے پُرے گھر چھوڑ کر نکل پڑے اور پہاڑی راستوں، چشموں اور دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے قریبی جنگلوں میں پناہ گزین ہو گئے۔ جب حالات ناقابلِ برداشت ہوگئے تو اکتوبر 47ء میں ہمارے خاندان نے بھی اپنے آبائی گاؤں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے اپنا گھر بار رات کے اندھیرے میں چھوڑا تھا۔ ہمارے ساتھ معمولی سامان تھا۔ جو بڑے بھائیوں اور والد صاحب نے اٹھا رکھا تھا۔ ہم سے چھوٹی دو بہنیں نذیر اور منیر تھیں۔ ان کو بھی ہماری والدہ اور بڑی بہن نے سنبھالا ہوا تھا۔ پہلی رات ہم نے شدید سردی، سخت موسم اور کسمپرسی میں قریبی گھنے جنگل میں گزاری۔ آج بھی جب وہ رات یاد آتی ہے تو ایک سرد سی لہر جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ قافلوں کی شکل میں رشتہ داروں کے قریبی دیہاتوں کے متعدد خاندان بھی تھے۔ انڈین فوج اور ایئر فورس کے طیارے ہمارا کھوج لگانے کی کوشش کرتے اور گولہ باری بھی کرتے رہے۔ ہم سخت صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دوسرے روز کھوئی رٹہ شہر پہنچے۔ جہاں سینکڑوں لٹے پٹے خاندان پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ دشمن کہاں بے خبر تھا؟ اس کے جہازوں نے ہمیں وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور شہر پر بمباری شروع کر دی۔ جس سے بڑا جانی نقصان ہوا۔ مکانات تباہ ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا اور ہم وہاں سے پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ مہاجروں کے قافلے اب میرپور کی طرف رواں دواں تھے اور ہر کلومیٹر پر پڑاؤ ڈالتے اور پہاڑوں اور وادیوں کو عبور کرتے ہوئے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں میرپور پہنچے۔ میرپور شہر اس وقت جس جگہ آباد تھا۔ وہ اب منگلا ڈیم میں زیر آب آچکا ہے۔ جب ہمارا قافلہ میرپور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور ہم نے پہلی بار کسی کار کو دیکھا تھا۔ دو کاریں جب روشن لائٹس کے ساتھ آمنے سامنے آتیں تو ہم سمجھتے کہ اب یہ دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گی۔ تاہم جب وہ گزر جاتیں تو بڑی حیرانی ہوتی کہ یہ کیسے ہوگیا۔ میرپور میں ہمارا چند روز قیام رہا۔ اقوام متحدہ نے نوزائیدہ حکومت کے تعاون کے ساتھ ہم مہاجروں کے لیے ضلع جہلم کے قریب چک جمال کے مقام پر فوجی بیرکوں میں عارضی کیمپ (رہائش) کا بندوبست کیا تھا۔ اس لئے وہاں کے لیے پیدل ہی ہمارے قافلے روانہ ہوئے اور کئی دنوں کی مسافت کے بعد ہم چک جمال پہنچ گئے۔ جہاں ہم تین چار سال مقیم رہے۔ ہماری ابتدائی تعلیم کا آغاز اسی چک جمال میں 1951ء میں عارضی طور پر قائم ایک پرائمری اسکول سے ہوا اور ایک سال تک اردو قاعدہ اور پہلی جماعت کی تعلیم وہیں حاصل کی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭